تاریخ کے اوراق پلٹیں توپتہ چلتا ہے کہ کئی دفعہ معاشرے ابنارمل ہو جاتے ہیں، ہر دل میں نفرت بھر جاتی ہے، تشدد، گالی گلوچ، ہر شخص پر شک، الزامات اور سکینڈل عام ہو جاتے ہیں۔ پیٹرایکرائڈ کی کتاب لندن میں لکھا ہے کہ آج کے مہذب اور تہذیب یافتہ شہر لندن میں 16ویں اور 17ویں صدی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر گلی محلے میں روز لڑائیاں ہوتی تھیں۔ تشدد، مارپیٹ اور گالیوں کا عام رواج تھا ۔ ابنارمیلٹی اس حد تک زیادہ بڑھ چکی تھی کہ لوگ تشدد اور مارپیٹ کو دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے، جوش اور جنون میں نعرے لگاتے تھے، اسی زمانے میں ریچھ کا وہ تماشا مشہور تھا جس کے دوران ریچھ کو ڈنڈے سے مارا جاتا تھا اور وہ چیختا چلاتا تھا، تشدد کے دلدادہ عوام خوشی سے چیختے تھے اور چلاتے تھے۔ لندن شہر کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اس زمانے کے تھیٹر پر بھی تشدد کو گلیمرائز کیا جاتا تھا، لوگوں کی مارپیٹ اور تشدد سے تسلی نہ ہوئی تواسٹیج پر خون بہتا ہوا دکھایا جانے لگا۔ لوگوں کا جنون اور جوش اس حد تک بڑھا کہ ایک بار اسٹیج پر واقعی قتل کا منظر اور بہتا ہوا خون دکھایا گیا، اس وقت کے ابنارمل شائقین نے اس کو پسندیدہ ترین تھیٹر قرار دیا ۔ یہ شائقین بہتے خون کا مزہ لیتے، جوش اور جنون سے نعرے مارتے اور خوش ہوتے۔
تضادستان کے آج کے شہری بھی نفرت، تشدد اور انتقام میں پل رہے ہیں، انہیں احساس نہیں ہورہا کہ وہ نارمل انسان سے ابنارمل انسانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کل کے لندن اور آج کے تضادستان میں بہت مماثلت ہے۔ یہاں نونی چاہتے ہیں کہ عمران خان کو تن دیا جائے، نشان عبرت بنا دیا جائے، نہ اسے جیل سے نکالا جائے اور نہ اسے الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ دوسری طرف انصافی چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کے حامیوں کو بولنے بھی نہ دیا جائے۔ یہ تفریق اور تضاد یہیں ختم نہیں ہوتا جنرل باجوہ اور انکے قبیل کے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر سینٹ، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے ہزار بارہ سو اراکین کو مار دیا جائے تو ملک کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کے انتہا پسند اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ فوج کو ختم کرنا ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ نفرت کا یہ سلسلہ اس قدر گہرا ہے کہ فوج کے بارے میں تصور ہے کہ وہ عوام کو بلڈی سویلین سمجھتی ہے اور دوسری طرف کئی سویلین فوج کے جرنیلوں کو سوچ اور سمجھ سے عاری خیال کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا کی بڑی عزت تھی مگر نفرت کے اس ماحول میں میڈیا بھی ایسے ہی حالات کاشکار ہے۔ انصافی سرعام کہتے ہیں کہ میڈیا بِک چکا ہے، ہر کسی پر الزام لگا دیتے ہیں کہ وہ لفافہ ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر پڑھے لکھے لوگ ایک دوسرے کو گالیاں لکھ رہے ہیں۔ بالکل وہی ابنارمیلٹی دیکھنے میں آ رہی ہے جو لندن میں بہتے خون کو دیکھ کر مزہ لینے والوں میں تھی۔
یاد کریں کہ کبھی یورپ کے ممالک میں نفرت، دشمنی، عناد یا ایک دوسرے کو مٹانے کی خواہش موجودتھی، فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سو سال تک جنگ ہوتی رہی مگر ایک وقت ایسا آیا کہ یورپ میں یہ احساس جاگا کہ نفرت کی بجائے امن اور محبت کا آپشن اپنایا جائے، تجویز یہ آئی کہ فرانس اور انگلینڈ کے درمیان زیر آب انگلش چینل بنانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی اس معاملے میں دوسری جنگ عظیم کے ہیرو فیلڈ مارشل منٹگمری سے انگلش چینل بنانے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی۔ فیلڈ مارشل منٹگمری نے فورا جواب دیا کہ فرانسیسی بڑے سازشی اور ناقابل اعتبار ہیں اگر انگلش چینل بن گیا تو فرانسیسی فوج رات کے اندھیرے میں اس میں آ کر چھپ جائے گی اور صبح انگلینڈ پر قبضہ کرلے گی۔ آج کی نئی دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کامیابی سے چلتے انگلش چینل کو دیکھ کر فیلڈ مارشل کی سوچ پر رونا آتا ہے۔ نفرت میں انسان صحیح طرح سے سوچ ہی نہیں پاتا۔ آج کے تضادستان میں لوگ نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اس لئے وہ جو بھی سوچ رہے ہیں وہ مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ اور پیچیدہ بنا دے گا۔
فرض کرلیں کہ نونی اقتدار میں آ جاتے ہیں، انصافی لیڈر اور اس کی جماعت کو جیلوں میں رکھتے ہیں، مقدمات چلاتے ہیں،سزائیں سناتے ہیں اور اپنے سارے بدلے چکاتے ہیں تو کیا اس سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہو جائیگا؟ ہر گز نہیں۔ اب دوسرا رخ دیکھ لیں انصافیوں نے نونیوں کے لیڈر کو جیل میں رکھا، 2018 کا الیکشن اس کی اسیری کے دوران ہوا، اس وقت فوج اور انصافی ایک صفحے پر تھے کیا وہ نونیوں کو سیاسی طور پر ختم کر سکے؟ ہر گز نہیں۔ ایک اور پہلو پر غور کرلیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملک سے سیاسی اور معاشی بحران ختم ہو۔ کیا انصافیوں کو جیلو ں میں رکھ کر سیاسی بحران ختم ہو جائیگا۔ ہرگز نہیں، بلکہ یہ اور بڑھے گا۔ انصافیوں کی اپروچ بھی سراسر غلط ہے، کبھی فوج کو گالی ، کبھی میڈیا پر الزام تراشی، کبھی نونیوں کیخلاف نفرت انگیز رویہ۔ کیا اس سے وہ اقتدار حاصل کرلیں گے؟ ہرگز نہیں۔ غصے سے بھرے اس ماحول میں دنیا کی طرف دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے نفرت، انتقام اور گالیوں سے اپنے مسائل حل کئے یا مصالحت اور مفاہمت سے۔ یورپ نے عالمی جنگیں لڑنے کے بعد بالآخر اپنے دشمنوں جرمنی اور جاپان کی تعمیر نو میں حصہ لے کر مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اپنایا۔ ہمیں بھی تضادستان کے اندر اگر تضادات کو ختم کرنا ہے تو مفاہمت اور مصالحت کا رویہ اپنانا ہوگا۔ پاکستان کی واحد مشترکہ اور متفق علیہ دستاویز آئینِ پاکستان ہے، یہ آئین ملک کے تمام صوبوں، تمام جماعتوں اور تمام مکاتبِ فکر نے مصالحت اور مفاہمت سے بنایا، ملک اسی آئین کے تحت چلنا چاہیے، فوج بھی اسی آئین پر حلف لیتی ہے اسے بھی اپنے تمام فیصلے اسی کے تحت کرنے چاہئیں۔
سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کو نفرت اور انتقام کے رویے ترک کرنا ہوں گے ، ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا کہ پوری قوم ہی ایک جماعت کی حامی بن جائے اور اس کے سارے مخالف صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، جمہوریت کی ماڈرن تشریح بھی یہی ہے کہ اکثریت کی ایسی حکومت جو اقلیت کے حقوق تسلیم کرے۔ اگر آپ اپنے مخالف کو زندہ رہنے اور اسے اپنی رائے کا حق رکھنے کو تسلیم نہیں کرتے تو آپ جمہوری نہیں بلکہ فاشسٹ سوچ کے مالک ہیں۔ اہل سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرلیں تو پھر اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو بھی پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے مفاہمت اور مصالحت کے راستے پر چلنا ہو گا۔ منتخب حکومتیں گرانا اور نئے نئے تجربے کرنا بیکار ثابت ہوا ہے، سیاست کو نیچرل انداز میں چلنے دیں بالآخر بنگلہ دیش اور بھارت کی طرح سیاستدان ملک کوبہتر طریقے سے چلانا شروع کردیں گے، حکومت چلانا سیاست دانوں کا حق ہے، دنیا بھر میں اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے، آئینِ پاکستان بھی اہلِ سیاست کو یہ حق دیتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا راستہ آئین کی حکمرانی ہی میں ہے…..
بشکریہ روزنامہ جنگ