ابھی بیٹھے بیٹھے ذہن میں ایک سوال آیا کہ ہم اردو کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ہمارا داٸرہ بھی وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
لیکن حکومتیں اس معاملے سے جان بوجھ کر غفلت برت رہی ہیں۔ صاف لگتا ہے کہ قوم کو جان بوجھ کر ذہنی طور پر مفلوج بنایا جا رہا ہے ورنہ یہ کوٸی ایسا معاملہ نہیں جس کو نظر انداز کیا جاۓ۔یہ سب منصوبہ سے کیا جا رہا ہے۔عوام الناس اس سے بے خبر ہیں
آٸیے تصور کریں کہ اس معاملے کو اسی طرح پس پشت ڈالا جاتا رہا جیسا کہ اب تک جان بوجھ کر کیا جاتا رہا ہے تو آنے والے سالوں میں ہماری قومی تصویر کیا ہو گی۔
میں اس خوفناک وقت کی تصویر دکھانا چاہتی ہوں۔
اقبال نےکہا تھا
کھول کر آنکھیں مرے آٸینہء گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
اگر معاملات ایسے ہی رہے تو ہماری قومی تصویر کیا ہوگی؟۔
تقریباً بیس سال بعد کا تصور کیجیٸے۔
قومی زبان پر کام کرنے والے خال خال ہوں گے۔دوسری طرف پڑھنے والے بہت ہی کم ہوں گے۔نوجوان انگریزی میں پڑھیں گے اور اردو صرف بولیں گے۔
علاقاٸی زبان صرف بولنے کے لیٸے ہوں گی ۔اردو میں لکھے گٸے ورثے سے نابلد ہوں گے۔
یہ بات تو طے ہے کہ چاہے جو کچھ کر لیں انگریزی میں اقبال ، غالب ، فیض اور فراز تو نہیں آٸیں گے جو اپنی تہذیب ثقافت کی چاشنی سے بھر پور بات کریں۔نہ ہی مذہب کا اصل ورثہ اگل نسلوں میں منتقل ہو گا۔
تمام صوبے جو زبان کی وجہ سے بندھے ہیں وہ کس زبان میں آپس میں رابطہ کریں گے ۔ رومن اردو کا سیلاب سب کو لے ڈوبے گا۔رومن اردو اصل میں نہ اردو ہے نہ انگریزی۔اس طرح اکثریت لسانی بحران کا شکار ہو گی۔بھلا سب کو انگریزی کیسے آٸے گی۔اگر آتی تو رومن اردو کیوں لکھتے دوسری طرف اردو کے حروف تہجی بھول جاٸیں گے۔
کیا اس بھیانک تصویر کا تصور کیا جا سکتا ہےکہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ یہاں پر انتظار حسین کے افسانے کشتی کا حوالی دینا چاہتی ہوں۔
” اندر حبس باہر بارش ، جہاں تو کدھر جاٸیں۔
اٹھو کہ حشر برپا نہ ہوگا پھر کھبی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا