گاوں کہ بچہ اعتماد کی کمی کا شکار کیسے ہوتا ہے۔ جب سے وہ پیدا ہوتا ہے وہ روزانہ کی بنیاد پرطرح طرح کی سزائیں سنتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے ۔ کہ کیسے کس،سزا سے بچا جائے، یہ تراکیب سوچنا ہی اس کا اعتماد کھا جاتیں ہیں۔
ابلا ہو انڈا ایک ہو تو نہیں کھانا چاہیئے۔ کیونکہ اس کا سواد ہی دو انڈوں سے شروع ہوتا ہے پہلا فتوی سنائی دیتا ہے انڈے زیادہ نہیں کھاتے یہ گرم ہوتے ہیں۔ ذہن میں آتا ابلا ہوا ہے گرم تو ہوگا اس کو ٹھنڈے کرکے کھاتے سواد تو گرم کا ہی ہوتا ہے پر انڈے کی گرمی سے بھی بچنا ہے تو ٹھنڈے کرکے کھانا شروع کردئیے۔ گرم والا خوف کا علاج کرلیا تو اب ٹھنڈے پر نمک ڈالنے لگے تو آواز آتی ہے دھیان سے جو نمک زمین پرگرے گا آنکھوں کی پلکوں سے قیامت کے دن اٹھانا پڑے گا۔ اس تصور میں کھوجاتے کہ یار قیامت تک تو یہ نمک گندا ہوجائے گابلکہ نمکین مٹی بن جائے گا۔ پھر بھی پلکوں سے اٹھانا تو ناممکنات سے ہے بڑی دشواری ہوگی ساری زندگی ابلے ہوئے انڈے بغیر نمک کے ٹھنڈے کرکے کھاتے گزار دی۔ پھر پتہ چلا پچاس سال جوانڈے کی زردی کھائی ہے وہ دل کیلئے اچھی نہیں ہوتی دل گڑبڑ،کرتا ہے تو سمجھ آئی جو ہر ایک پر ہمارا دل آجاتا ہے اس میں ہمارے دل کا قصور نہیں ہے بلکہ اس زردی کا قصور ہے جو کم علمی میں کھاتے رہے۔
جوتا سیدھا کرتے عمر گزر گئی۔ جب کسی کا یا اپنا الٹا پڑا جوتا دیکھا تو دوڑ کر اس کو سیدھا کردیتا سن رکھ تھا اس کی سخت سزا ہے کہ اللہ آسمان پر رہتے ہیں اس طرف جوتا نہیں ہونا چاہیے ۔ مسجد جاکر کئی دفعہ لوگوں کے جوتے سیدھے کرتے نماز باجماعت ہی گزر گئی۔ اب جاکر پتہ چلا کہ اللہ باری تعالی تو ساری کائنات میں ہر سمت موجود ہیں۔ سوچا جس نے ہمیں یہ بتایا تھا اس کو قیامت کے روز خوب سزا ملے گی۔ سارے پاکستان کے گھر اور باتھ روم بناتے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ پیچھا خانہ کعبہ کی طرف نہ ہو اور اس گھر کے اندر سونے کیلئے بیڈ ایسے رکھاجاتاہے کہ پاوں کعبہ کی طرف نہ ہوں۔ پر جب حرم جانا،ہوا تو بے شمار لوگوں کوخانہ کعبہ کی طرف پاوں کیے بیٹھے دیکھا۔ تو ذھن شدید انتشار کا شکار ہوگیا کہ جب کافر حرم میں آ نہیں سکتے تو یہ کون لوگ ہیں۔
قرآن مجید کے بلند احترام کے ساتھ اس کو پڑھنا بھی لازم ہے ہم اسکو احتراماً چومتے رہے آنکھوں کو لگا کر ٹھنڈک حاصل کرتے رہیے ۔ اس پر مخمل کے یزدان چڑھا دئیے اس کو گھر،کے بلند ترین مقام پر رکھا اور اس کو پڑھنے سے محروم رہے۔ حرم میں اس کو پڑھنے اور اس پر عمل کرتے لوگوں کو دیکھا اور وہ اس کو اپنے نزدیک ترین مقام پر رکھتے ہیں۔تاکہ پڑھنے میں آسانی ہو۔
ڈر نے ہماری سوچنے کی صلاحیت محدود کردی ہے۔
گاوں میں ہم نے ہمیشہ اللہ کو سزائیں دیتے سنا۔ جھوٹ بولنے پر زبان جلائی جائے گی، قبر میں بچھو اور سانپ آئیں گے۔ اس وقت کتابیں آتی تھیں موت کا منظر ۔
جب شہر آیا تو سکول میں سب بچے پڑھ رہے تھے اللہ ہے بس پیار ہی پیار۔ مجھے لگا شاید انکا خدا کوئی اور ہے میرا خدا کوئی اور ہے پر جب سورہ اخلاص کو پڑھا تو پتہ چلا اللہ تو ایک ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں پھر یہ سوچ میں فرق ڈالنے والے کون ہیں اگر آپ کو ملے تو مجھے بھی بتائے گا۔ ورنہ قیامت کے دن اللہ تعالی سے تو میں پوچھ ہی لوں گا یہ فرقے بنانے والے کون تھے اور شہر اور گاوں کے اللہ کا فرق بتانے والے کون تھے سوچ لو جب سوال اللہ باری تعالی سے ہوگا اور شکایت بھی ان سے ہوگی تو تمھارا کیا ہوگا۔
Load/Hide Comments