نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کا موازنہ تحریر:مزمل سہروردی


آجکل میاں نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کے تقابلی جائزہ کا موسم ہے۔ تحریک انصاف کے دوست بھی آجکل ایسا ہی تقابلی جائزہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں رہنماں کا تقابلی جائزہ کتنا جائز اور کتنا ممکن ہے۔ تقابلی جائزہ کے لیے جن نکات کو لیا جا رہا ہے وہ بھی کتنے حقیقت کے قریب ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ تقابلی جائزہ کیا جا رہا ہے کہ جیسے 2018کے انتخابات میں میاں نواز شریف جیل میں تھے۔ اسی طرح اب 2024کے انتخابات میں چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں نظر آرہے ہیں۔ اس لیے تاریخ کا پہیہ گھوم رہا ہے۔

کیا تقابلی جائزہ درست ہے۔ کیا چیئرمین پی ٹی آئی اور نواز شریف کے جیل جانے کے محرکات ایک جیسے ہیں۔ کیا نواز شریف کو جیوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے نہیں جیل بھیجا گیا تھا۔ جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کسی جیوڈیشل ایکٹوازم کی وجہ سے جیل میں نہیں ہیں۔ نواز شریف کو جلد سزا دینے کے لیے سپریم کورٹ نے ایک مانیٹرنگ جج مقرر کیا ہوا تھا۔
جس کی قانون اور آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی بھی مقدمہ میں سزا دینے کے لیے سپریم کورٹ نے کوئی مانیٹرنگ جج مقرر نہیں کیا۔ نواز شریف کو پہلے نا اہل کیا گیا بعد میں سزا دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا بھی نہیں ہوا ہے۔ اس لیے میرے نزدیک صرف دونوں کا اپنے اپنے وقت پر جیل میں ہونا تقابلی جائزہ کا کوئی معیار نہیں۔ جیل جانے کے محرکات اور کیسز کی نوعیت بھی دیکھنا ہو گی۔ ایسے تو جیلوں میں ہزاروں قیدی ہوتے ہیں سب کے جیل ہونے کا آپس میں تقابلی جائزہ کیسے ممکن ہے۔

یہ تقابلی جائزہ بھی کیا جا رہا ہے کہ نیازی حکومت میں تھا اور نواز شریف جیل میں تھے ٹھیک اسی طرح چار سال بعد اب نیازی جیل میں ہے اور نواز شریف باہر ہے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں پھر چار سال بعد حالات بدل جائیں گے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں سیاسی حالات بدل جاتے ہیں۔

آپ اقتدار سے نکالے بھی جاتے ہیں اور آپ کے لیے دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب خود بخود نہیں ہو جاتا ۔ اس کے پیچھے سیاسی حکمت اور سیاست کا بہت عمل دخل ہے۔ کیا چیئرمین پی ٹی آئی یہ کر سکتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا۔ اس لیے یہ کہنا کہ چار سال بعد چیئرمین پی ٹی آئی باہر ہونگے اور ان کے لیے وبارہ اقتدار کے دروازے کھل جائیں گے۔ بہت مشکل ہے۔ اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ قطع نظر پاکستان کے سیاسی مسائل کے، پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کسی سیاسی لیڈر نے اپنی ہی فوج پر اپنے سیاسی بلوائیوں سے حملہ کروا کر کے فوجی تنصیبات کو نہیں جلایا اور نہ ہی اپنے ملک پر جان دینے والے شہدا کی یادگاروں کی دشمن سے بھی بد تر بے حرمتی کی ہے ۔کیا نومئی کے واقعات کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کا پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار باقی رہ گیا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا نواز شریف یا ن لیگ نے اقتدار سے نکالے جانے اور نا اہل ہونے کے بعد کبھی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا تھا۔ لوگ گوجرانوالہ کی تقریر کی بات کرتے ہیں کہ دیکھیں نواز شریف نے بھی گوجرانوالہ میں فوج کے خلاف تقریر کی تھی۔ پہلی بات تو تقریر اور نو مئی کا کوئی موازنہ نہیں۔ دوسری بات اس تقریر میں بھی کوئی گالم گلوچ نہیں تھی نواز شریف فوج کو چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت اور ان کے سیاسی کردار پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

لیکن اس تنقید میں گالم گلوچ نہیں تھی۔ اس لیے یہ تقابلی جائزہ بھی درست نہیں۔ نواز شریف کا اختلاف تہذیب اور آئین کے دائرے میں تھا۔ جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا اختلاف نہ تو تہذیب اور نہ ہی آئین کے دائرے میںتھا۔ نواز شریف آئین کے دائرے میں رہ کر بات کرتے رہے چیئرمین پی ٹی آئی نے نہ صرف قانون توڑا بلکہ دہشت گردی بھی کی۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ چار سال بعد کوئی حالات بدلنے کا تقابلی جائزہ ممکن ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس