ایک لاڈلہ ماضی میں تھا، ایک کے ساتھ آج کل لاڈلے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے اور ایک ہے جو لاڈلہ بننے کی جستجو میں ہے اور لاڈلہ نہ بنائے جانے پر خفگی دکھا رہا ہے۔
یہ پاکستان کی سیاست کا وہ المیہ ہے جو نہ ختم ہونے کا نام لے رہا ہے، نہ لاڈلہ بننے کی ریس تھم رہی ہے اور نہ ہی لاڈلہ بنانے والوں کا طریقہ کار بدل رہا ہے۔
نام جمہوریت کا لیا جاتا لیکن حقیقت میں ہم ایک ایسے ہائبرڈ نظام کا حصہ ہیں جس کی مثال آدھا تیتر آدھا بٹیر والی ہے۔ اصل لڑائی اختیار اور طاقت کی ہے جو آج کے لاڈلے ہوں، ماضی کے یا لاڈلے بننے کی خواہش رکھتے ہوں، سب نے اور اُن کے بڑوں نے یہ لڑائی ہمیشہ ہاری ہے۔
اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ میری نظر میں آئین اور جمہوریت پر ان لاڈلوں کے یقین کانہ ہونا ہے اور جب بھی انہیں اقتدار کا موقع ملتا رہا تو انہوں نے آئین اور جمہوریت کا نام اُسی حد تک استعمال کیا جہاں تک اُن کو سوٹ کرتا تھا۔
لاڈلے بنانے والے سیاست میں مداخلت کر کے آئین اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو لاڈلے جمہوریت کو صرف الیکشن اور اقتدار کے حصول تک محدود رکھتے ہیں۔
آئین کو پڑھیں، جمہوریت کے نظام کی اصل کو سمجھیں تو مقصد عوام کی خدمت، اُن کی فلاح، خوشحالی، میرٹ، قانون کی عملداری، بہترین طرز حکمرانی، سرکاری اداروں کی عوام کیلئے بغیر سفارش فوری سروس ڈلیوری، سستے اورفوری انصاف کی فراہمی ہے۔ یعنی ایک ایسے نظام کا قیام جس کا مقصد عوام کو روزگار، بنیادی سہولتیں، تعلیم وصحت، سب کچھ مہیا کرنا ہو۔ جتنے ادارے بنائے جاتے ہیں سب کا مقصد ملک اور عوام کی خدمت ہے۔
اب اپنے آپ کو دیکھیں تو جمہوریت الیکشن سے آگے کچھ نہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ نہ انصاف کا نظام، نہ تعلیم و صحت کی سہولتیں، نہ میرٹ، نہ بنیادی سہولتیں، نہ روزگار کے مواقع۔
عوام کی خدمت اور سہولت کیلئے بنائے گئے کسی سرکاری محکمے میں چلے جائیں عوام دھکے کھاتے دکھائی دیں گے ۔
یہ کیسی جمہوریت ہے جو پولیس کے محکمہ کو ٹھیک نہیں کرتی، واپڈا میں چلے جائیں، بجلی و گیس کے میٹر لگانے کی کوشش کرلیں، گھر، زمین خریدنے بیچنے کے معاملہ کو دیکھ لیں، بچے کی پیدائش اور کسی کی فوتیدگی کا سرٹیفکیٹ لینے چلے جائیں یا انصاف کیلئے کورٹ کچہری جانے کا اگر آپ کو اتفاق ہو تو ہر طرف عوام کیلئے دھکے ہی دھکے ہیں۔سفارش چلتی ہے یا پیسہ۔
جائز سے جائز کام کسی سرکاری ادارے میں نہیں ہوتا اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن جمہوریت کے نام پر ایک کے بعد ایک اقتدار میں آنے والے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے۔
بس ایک ریس ہے لاڈلہ بننے کی اور لاڈلہ بنے رہنے کی۔ لاڈلہ بنانے والے بھی طرز حکمرانی کی درستی میں دلچسپی نہیں لیتے کیوں کہ اُن کا اصل مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا ہے اور یہ طاقت اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ لاڈلے آئین اور جمہوریت کی روح کے مطابق عوام کی خدمت کیلئے گورننس سسٹم کو ٹھیک نہیں کرتے۔
ایسا گورننس سسٹم جس کا مقصد صرف اور صرف عوام کی فلاح، اُن کی خدمت، اُن کیلئے سہولتوں کی فراہمی اور تمام بنیادی ضروریات کا آسانی سے مہیا کیا جانا ہو۔ یہ کچھ بھی پاکستان میں نہیں ہوتا۔
ہمیں جس جمہوریت کا سبق پڑھایا جاتا ہے وہ صرف الیکشن اور ووٹوں تک محدود ہے۔ جب ہماری اس جمہوریت کےلاڈلے الیکشن جیت کر حکومت بناتے ہیں تو گورننس کے نظام کو درست کرنے، سرکاری مشینری کو غیر سیاسی کرنے اور اُسے عوامی خدمت کی طرف فوکس کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے اسی لیے نہ ہماری پولیس ٹھیک ہوتی ہے نہ سرکاری ادارے، نہ یہاں انصاف ملتا ہے نہ کسی کو آئین کے مطابق بنیادی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں۔
جمہوریت کے نام پر عوام سے اس نہ ختم ہونے والےفراڈ کو روکا جانا چاہیے۔ اپنی اپنی مرضی کا آئین اور اپنی اپنی مرضی کی جمہوریت کا یہ کھیل رکنا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ