پہلے ہی پاکستانیوں کے دل اور ذہن پر بہت سے بوجھ تھے۔ پیر کی رات افغانستان سے کرکٹ میچ میں شکست فاش نے اور زیادہ اُداس کردیا۔ کھیل تو کھیل ہی ہوتا ہے لیکن اس خطّے میں سیاسی مخالفتیں ہر شعبے میںحاوی ہیں۔ پہلے پاکستانیوں کی جذباتی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ کسی سے بھی ہار جائیں۔ بھارت سے بالکل نہیں ہارنا۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ایک اور ہمسائے نے بھی چیلنج دینا شروع کردیا ہے۔ بلکہ افغانستان کے کھلاڑیوں کے چہروں پر تو بھارتیوں سے زیادہ برہمی نظر آتی ہے۔ 70 کی دہائی سے افغانوں کی میزبانی کرتے آرہے ہیں۔ اب بھی کئی لاکھ افغانی ہمارے مہمان ہیں۔ لیکن بھارتی تجارتی کمپنیوں کی سرپرستی کی وردی پہنے افغان کھلاڑی پاکستان کے مقابلے میں جن تنی بھنوؤں، دہکتی آنکھوں اور جلتی پیشانیوں کیساتھ اترتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑی اور تماشائی ان سے ہی خائف ہوجاتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کی آمد کے تیسرے دن یہ غم انگیز واقعہ رونما ہوا ۔ پوری قوم ایک اندوہ میں مبتلا ہے۔ان دنوں پاکستان کو ہر قسم کے بحران اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یہ بحران عمودی طور پر بھی ہمیں محصور کررہا ہے اور افقی انداز سے بھی۔ ایسے میں ہمارا یہ عزم نہ جانے کسی کو مناسب بھی لگے گا یا نہیں لیکن وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سب عوام جو ملک کے اصل مالک ہیں۔ مملکت کے ستون، مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا۔ ہماری فوج، ہمارے دانشور، اساتذہ، طالب علم، کسان، ہاری، مزدور، سرکاری غیر سرکاری ملازمین، سول سوسائٹی اور علماء سب کا ہدف پاکستان کی عظمت رفتہ کی بحالی ہونا چاہئے اور یہ بحالی ہر شعبے میں ہونا ہے۔ امریکی مدبر اور مصنّف۔ جمیز فری مین کلارک(4اپریل 1810 سے 8جون 1888) تک کے قول فیصل کی روشنی میں صرف اگلا الیکشن نہیں،آئندہ نسلیں ہماری مخاطب ہونی چاہئیں۔ اس نے کہا تھا:
“A politician thinks of the next election. A statesman of the next generation.”
پاکستان میں سیاستدانوں کی تو بھیڑ لگی ہے۔ کچھ خودرو جھاڑیوں کی طرح اُگ رہے ہیں۔ کچھ نرسری سے منتقل ہورہے ہیں۔ کچھ موروثی ہیں۔ تدبر اور سنجیدگی سے۔ اپنے دوام سے سب خوف کھاتے ہیں۔ اسلئے ہم میں مدبر پیدا نہیں ہوتے۔ الٹرا ساؤنڈ میں اگر پتہ چلتا ہے کہ کوئی مدبر پیدا ہونے والا ہے تو اسقاط کروادیا جاتا ہے۔ جس قوم میں مدبر نہ ہوں۔ صرف سیاستدان ہوں تو وہاں اگلے الیکشن کی ہی فکر ہوتی ہے۔ اس کو جیتنے کیلئے ہی آئین میں ترامیم کی جاتی ہیں۔ پارلیمنٹ نئے قوانین بناتی ہے۔ لوگ منتخب ہوتے ہیں۔ مگر وہ حسن انتخاب نہیں ہوتے۔
1985 سے الیکشن بار بار ہوتے آرہے ہیں۔ اگر یہ انتخابی عمل آئین اور قانون کے مطابق ہوتا تو اب تک حقیقی آزادی کی صبح حسیں آچکی ہوتی۔
ویسے ضروری تو یہ ہے کہ ملک اس وقت جس بدحالی اور بے بسی کا شکار ہے ہم تمام ہمسایوں سے پیچھے چلے گئے ہیں۔ یہ پریشان کن حالات، سنگین بحران کس کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم نہ بھی جائزہ لیں۔ عالمی ادارے۔ عالمی ماہرین۔ ہردَور کا جائزہ لے کر ذمہ داروں کا تعین کرچکے ہیں۔
جمیز فری مین کا یہ کہنا بھی ہے:
” Seek to do good and you will find that happiness will run after you.”حکمران طبقوںنے اپنی اگلی نسلوں کیلئے اثاثے بنالیے ہیں۔ وہ قوم کی اگلی نسل کیلئے نہیں اپنی اگلی نسل کیلئے فکر مند رہتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں ہی نہیں۔ امیر ترین ملکوں کے بڑے شہروں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ ان طبقوں میں جاگیردار، زمیندار، سردار، جنرل، بیورو کریٹ، صنعت کار، سب شامل ہیں۔ یہ صرف اگلے الیکشن کیلئے سوچتے ہیں۔ اس کیلئے ڈیل کرتے ہیں۔ سرمایہ لگاتے ہیں۔ اب ان کے علاقائی رابطے بھی ہیں۔ عالمی کاروباری سلسلے بھی۔ ایک بین الاقوامی مافیا میں سب بندھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے۔ یہ قطعاً مقامی نہیں ہے۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، بھارت، بلجیم، فرانس، کینیڈا سے ڈانڈے ملے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو اسی طرح لڑکھڑاتا، ڈگمگاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ موجودہ پاکستان ایک قابل عمل، اقتصادی وحدت ہے۔ معدنی زرعی طور پر اللہ تعالیٰ نے بہت وسائل دیے ہیں۔ ہمارے عوام محنت کش ایماندار اور باشعور ہیں۔ لیکن ان کو فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا ہے۔ صرف 2024 کے الیکشن کو سامنے نہ رکھیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بار بار ملک کے خزانے سے اپنی قسمت سنوارنے والوںکیلئے بھی اب کے لوٹ مار آسان نہیں ہوگی۔ گائے بہت دودھ دے چکی ہے۔ اس گائے کو اچھا چارہ بھی ملنا چاہئے۔اپنے عظیم وطن کی عظمت رفتہ بحال کرنا ہمارا ہدف ہونا چاہئے۔ اس کیلئے بہت سے سوالات ہیں۔ جن کے بارے میں آپ سوچیں تو آپ کو خود ہی بہت سے جوابات مل جائیں گے۔چند ایک سوالات آپ کے سامنے رکھوں گا۔
1۔ یہ جو میاں صاحب کو چوتھی بار زحمت دی جارہی ہے۔ کیا یہ انتظام صرف مقامی ہے یا اس میں عالمی طاقتیں بھی شامل ہیں۔2۔ اگر شامل ہیں تو انکے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔3۔ کیا اس روڈمیپ میں چین کی مرضی بھی ہے۔4۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی جس طرح مقبولیت بڑھ رہی تھی، اس کی بنیادی وجہ کیا تھی۔5۔ اب بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کے عوام پر اپنی مرضی کیوں مسلط کرنا چاہتی ہیں۔6۔ اس انتظامی صورت حال پر ایران کی کیا سوچ ہوگی۔7۔ کیا پاکستان سے دوسرے ملکوں میں منتقل ہونیوالی صنعتیں واپس آجائیں گی۔8۔ یہ تبدیلیاں انڈیاکیلئے کیا پیغام رکھتی ہیں۔ 9۔ کیا اقتدار سویلین کو پوری طرح منتقل ہوجائیگا۔10۔ ملک کی تقدیر بدلنےکیلئے جس ٹیم کی ضرورت ہے کیا وہ سامنے نظر آرہی ہے۔11۔ کیا اب چیف ایگزیکٹو کا دوسرے کسی چیف سے کوئی تصادم نہیں ہوگا۔
دنیا بھر میں ملک سنوارنے والے نوجوان درسگاہوں سے ہی آتے رہے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں آئندہ دس پندرہ برس کیلئے ایک جامع روڈ میپ پر سیمینار اور مباحث ہونے چاہئیں تاکہ پاکستان کی اگلی نسلوں کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔
بشکریہ :روزنامہ جنگ