ملٹری کورٹس کا معاملہ … تحریر : مزمل سہروردی


سپریم کوررٹ کے ایک بنچ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔ اس فیصلے پر قانونی ماہرین اور فمہیدہ طبقے اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کے قانون میں عدالتی فیصلوں کے بعد ان پر تبصرہ کرنے کی اجازت ہے۔ آپ فیصلے کے قانونی نقاط اور فیصلے کے اچھے برے پہلوؤ ں پر رائے بھی دے سکتے ہیں اور فیصلے پر تنقید بھی کر سکتے ہیں، اس لیے اس فیصلے کے بعد اس پرر ائے دینا کوئی جرم نہیں۔

اس فیصلے پر ایک رائے یہ دی جارہی ہے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ اس فیصلے کا فوری فائدہ سانحہ نو مئی کے ملزمان کو پہنچے گا، انھیں بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نو مئی کے واقعات کے بعد اپنی جماعت کے لوگوں کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے حالانکہ جب وہ خود وزیر اعظم تھے تو انھوں نے بطور وزیر اعظم سپریم کورٹ میں یہ اپیل دائر کی تھی کہ سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی دو پٹیشن موجود تھیں۔ ایک وہ پٹیشن جس میں وہ ملٹری کورٹ کے حق میں تھے جب کہ د وسری وہ پٹیشن جس میں وہ سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے خلاف تھے۔

بہت سے لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی سے وضاحت مانگی جانی چاہیے کہ وہ بتائیں ان کا کونسا موقف درست ہے کیونکہ وہ دو مختلف موقف کے ساتھ سپریم کورٹ میں کیسے آسکتے ہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ1952 اور1967 کے تحت ہزاروں سویلین ان ملٹری لا کے تحت ڈسپوز آف کیے جا چکے ہیں۔ سپریم کورٹ اِن قوانین کی روشنی میں متعدد فیصلے بھی دے چکی ہے۔ لیکن شاید ان سب کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں تھا، اس لیے وہ سب فیصلے جائز تھے۔

اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ پٹیشن کا مقصد ایک پولیٹکل اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ دوسری طرف اس پٹیشن کا اصل مقصد مئی کے فسادات میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے شرپسندوں کو ملٹری قانون کے شکنجے سے بچانا ہے کیونکہ اگر ان شرپسندوں پر آرمی ایکٹ نہیں لگتا تو کریمینل پروسیجر کی شقیں لگنے سے یہ سب ملزمان آسانی سے رہا کرائے جا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کا کرمنل لا دنیا میں کمزور ترین ہے اور آسانی سے لوگوں کو من مرضی کا ریلیف دلوایا جا سکتا ہے۔

عدالتوں میں تو ان کے مقدمات کئی کئی سال زیر التوا رہیں گے اور یہ سزا سے بچ جائیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو ریاست کے کمزور ہونے کا تاثر پختہ ہوگا اور شر پسند ریاست سے زیادہ طاقتور نظر آئیں گے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہونے والے فیصلوں پر نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی اسے ڈیو پروسیس قرار دے رکھا ہے ۔

پاکستان کے قانون اور آئین کے تناظر میں اس قانون کی حقیقت اور حیثیت سے قانونی حلقے بخوبی آگاہ ہیں ۔ ملٹری کورٹس کا وجود قانون اور آئین میں تسلیم کیا گیا ہے، ان کی قانونی اور آئینی حیثیت پر کبھی کوئی ابہام نہیں رہا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ عدالتی عظمی کے معزز بینچ کا حالیہ فیصلہ ملک پرگہرا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ ریاست کی حساس تنصیبات اور عمارتوں پر حملے کے نتائج اوراس کی حساسیت کمپرومائز ہونے کا احتمال موجود ہے، ہر سیاسی جماعت، تنظیم اور گروہ کے لوگ سمجھیں گے، ریاست کے حساس اداروں کی تنصیبات پر حملہ کر کے بھی ہم بچ سکتے ہیں۔

مستقبل میں لوگ دوبارہ حساس فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کو ایک نارمل اور روٹین معاملہ بنا لیں گے۔ مستقبل جو سیاسی پارٹی الیکشن ہار جائے یا تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوجائے تو اس کی قیادت اداروں پر الزام عائد کرکے اپنے حامیوں کے جلوس لے کر حساس تنصیبات پر حملہ آور ہوجائے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان کو اپنی رٹ اور اتھارٹی کے لیے فوری اپیل میں جانا چاہیے۔ بار اور بنچ کو بھی معاملے کی حساسیت کے پہلووں پر غور کرنا ہوگا ۔ ماضی کے وہ تمام فیصلے جو آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز پر قانون کے مطابق چلائے گئے اور سزائیں بھی دی گئیں، کا حساب بھی لینا ہوگا کیونکہ ریاست ہمیشہ سیاست سے بالا تر اور مقدم رہتی ہے۔

اب تو یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوا باقی سب کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کا نہیں ہونا چاہیے۔9 مئی کے واقعات پر پارلیمنٹ واضح طریقے سے قرارداد پاس کر چکی ہے کہ ان فسادات میں شامل تمام شر پسندوں کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہونا چاہیے۔

9 مئی کو کیے گئے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ یہ وہ گرفتار افراد ہیں جو جی ایچ کیو راولپنڈی،کورکمانڈر ہاوس لاہور پر حملے، پی اے ایف بیس میانوالی،آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پرحملے، حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اور گوجرانوالہ کیمپ پرحملے میں ملوث ہونے پر تحویل میں ہیں۔

ماضی میں بھی سول عدالتوں میں ایسے کیسز میں ملوث افراد کے خلاف کوئی موثر قانونی چارہ جوئی نہ ہو سکی۔ پہلے بھی فوجی تنصیبات سمیت جی ایچ کیو، کراچی ایئرپورٹ اور بڈھ بیر میں حملے ہوتے رہے ہیں۔

ماضی میں ہونے والے حملوں کے ٹرائلرز سول نہیں بلکہ فوجی عدالتوں میں چلے ہیں۔ اگر 9 مئی کے مجرمان قانونی ابہام اور تاریخ پر تاریخ کے کلچر سے فائدہ اٹھا کر سزا سے بچ جاتے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کے سویلینزکی بڑی تعداد پاکستان آرمڈ فورسز کی تنصیبات میں ملازمت اورکام کرتے ہیں، ان میں سے کوئی اگر فوجی تنصیبات پر حملے میں کسی بھی انداز میں ملوث ہو یا سہولت کار ہو تو اس کا ٹرائل کیسے ہوگا؟ نیشنل سیکیورٹی سے جڑے اتنے سنجیدہ معاملات کی نزاکت اور حساسیت کو بغور سمجھا جانا چاہیے، کیونکہ ریاست اپنی رٹ پر قائم رہتی ہے۔

یہ رٹ اس کے سیکیورٹی اداروں کی طاقت و قوت کے بل پر قائم ہوتی ہے، دنیا کی کوئی ریاست کسی بھی سیاسی و عسکری گروہ ، تنظیم یا پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کو سیاسی وگروہی مفادات کے تحفظ کے لیے دفاعی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کا فری لائسنس نہیں دے سکتی ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس