21اکتوبر2023 کی شام سابق وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے لاہور کے تاریخی مینارِ پاکستان کے سائے تلے جو تاریخ ساز خطاب کیا ہے، اِس کا خلاصہ تین الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے : صبر، ضبط اور عفو! نون لیگی قائد جناب نواز شریف کا یہ خطاب تقریبا ایک گھنٹہ کو محیط تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ نواز شریف کی یہ تقریر پاکستان کے ہر اہم ادارے اور ہر اہم سیاسی جماعت کے قائدین نے سنی ہوگی کہ سبھی اِس خطاب کے منتظر تھے۔
سبھی اِس نظارے کے بھی منتظر تھے کہ دیکھتے ہیں نواز شریف صاحب ملک اور عوام سے چار سال کی طویل غیر حاضری کے بعد کتنے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر پاتے ہیں۔ اور یہ کہ مینارِ پاکستان کی فراخ اور وسیع گراونڈ میں نون لیگ اپنے قائد کی آمد پر کتنے لوگوں اکٹھا کر پاتی ہے۔
لاریب نون لیگ نے نواز شریف کی آمد کے موقع پر بہت سا روپیہ پبلسٹی پر بے دریغ خرچ کیا ہے۔ پاکستان بھر کے تقریبا سبھی اردو اور انگریزی اخبارات کو فل فرنٹ پیج چہار رنگا اشتہار جاری کیا گیا ۔
ایسا کرتے ہوئے نون لیگ نے کسی خست اور بخل سے کام نہیں لیا۔ اِسی اسلوب میں نجی ٹی ویوں پر بھی نون لیگ نے حسبِ منشا اشتہارات چلائے تاکہ نواز شریف کے ساتھ نون لیگ کا نام بھی بلند کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی نے البتہ یک زبان ہو کر نواز شریف کے مینارِ پاکستان جلسے اور اکٹھ کو نہایت کامیاب قرار دینے سے دانستہ اجتناب برتا ہے ۔
اِس کی وجوہ سے ہم سب آگاہ ہیں لیکن سبھی غیر جانبدار حلقے بیک زبان یہی کہتے ہیں کہ نواز شریف کا استقبالی جلسہ کامیاب بھی تھا اور نون لیگ کی امنگوں کے عین مطابق بھی ۔
جناب نواز شریف نے اپنے خطاب میں کسی شخص یا ادارے کا براہِ راست نام تو نہیں لیا لیکن ان کے خطابی لہجے میں کئی مواقع ایسے ضرور آئے جب ان کے الفاظ میں رنج ، دکھ اور شکوے کی کھنک اور بازگشت صاف سنائی دی گئی۔
ان رنج بھرے الفاظ اور واقعات کی باز آفرینی سے صاف جھلک اور چھلک رہا تھا کہ میاں صاحب کس سے کس پس منظر میں شکوہ کررہے ہیں۔ اظہارِ دکھ کے لیے بڑے میاں صاحب نے اپنی منفرد طرز ایجاد کی ہے۔ یہ ایک نہایت مشکل فن ہے مگر کہنا پڑے گا کہ نواز شریف اپنے خطاب میں اِس فن کے اظہار میں پوری طرح سرخرو ہوئے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب میں جس لہجے میں تین بار اپنی وزارتِ عظمی کے خاتمے، اپنے خلاف دیے گئے پراسرار دھرنوں، اپنی والدہ محترمہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے والدِ گرامی کے اموات کے موقع پر جنازوں میں شرکت کی اجازت نہ دیے جانے، اپنے سامنے بیٹی محترمہ مریم نواز شریف کی گرفتاری اور خود کو جیل میں ڈالے جانے کے واقعات کا دلدوز اسلوب میں تذکرہ کیا، صاف عیاں ہو رہا تھا کہ جناب نواز شریف اِن توہین آمیز واقعات و سانحات کو ہنوز بھولے نہیں ہیں۔
مینارِ پاکستان کے ملگجے سایوں میں کھڑے لاتعداد سامعین منتظر تھے کہ نواز شریف اِس نازک اور حساس موقع پر ، جب نواز شریف کے لیے عوامی ہمدردی اور محبت کا دریا بہہ رہا تھا، زیادتی کرنے والوں کے خلاف واضح نہیں تو کم از کم بین السطور احتساب کا اعلان ضرور کریں گے ۔ سامعین و ناظرین کی یہ توقع مگر پوری نہ ہو سکی۔
لگتا ہے جناب نواز شریف پر شہباز شریف صاحب کی محبت بھری پالیسی کا جادو چل گیا ہے ؛ چنانچہ ٹی ویوں کی اسکرینوں کے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے سامعین اور مینارِ پاکستان کی گراؤنڈ میں موجود حاضرین نے بلا واسطہ یہ سنا کہ نواز شریف نے سفید جھنڈا تھام کر کسی احتساب یا انتقام کا ذکر تک نہیں کیا ہے ۔ وہ مسلسل عفو ودرگزر کا پرچم تھامے نظر آتے رہے۔
جو درس سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے مبینہ چِلہ کے دوران سیکھا ہے، وہی آموختہ جناب نواز شریف نے چار سال کی صحرا نوردی کے بعد ازبر کر لیا ہے۔ یہ آموختہ یا درس نواز شریف کو شاید ایک بار پھر وزارتِ عظمی کی بلند کرسی پر بٹھانے میں معاون ثابت ہو جائے۔ شیخ رشید احمد کے چِلے کے بعد نشر ہونے والے انٹرویو اور 21اکتوبر کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے نواز شریف کے خطاب میں ایک قدرِ مشترک یہ سامنے آئی ہے کہ اداروں سے تصادم میں کسی سیاستدان کا بھلا نہیں ہے ۔
ایسا تصادم معرضِ عمل میں آئے تو اقتدار کے مزے بھی جاتے رہتے ہیں اور عزتِ نفس بھی شدت سے مجروح ہو جاتی ہے ۔ نواز شریف نے اپنے خطاب میں اِس تصادم کے نتیجے میں جنم لینے والے تلخ سانحات کو صبر، ضبط اور عفو کے لباس میں اپنے سامعین کے گوش گزار کر دیا ہے۔
عجب دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ جناب نواز شریف کے لبوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کا نام آ ہی گیا، لیکن پھر اِس پر وہ معذرت خواہ بھی ہوئے۔
وہ اشاروں کنایوں میں خان صاحب کا ذکر کرتے رہے۔ کبھی حریفوں کے خلاف خانصاحب کی لفظی سنگباری کا اور کبھی ان کی تسبیح کا ذکر۔خود بھی کہا: میں بھی تسبیح پھیرتا ہوں مگر لوگوں کے سامنے نہیں، تنہائی میں۔سننے والوں نے فورا پہچان لیا کہ میاں صاحب کا طنز کس جانب ہے ۔ بحثیتِ مجموعی جناب نواز شریف کا یہ خطاب مکمل اور بھرپور تھا۔ ان کے توانا لہجے سے احساس تک نہ ہوا کہ وہ کبھی شدید بیمار بھی رہے ہیں اور بیماری کی حالت ہی میں چار سال قبل ملک سے نکلے تھے ۔
آج وہ کامل صحت کے ساتھ واپس آئے ہیں ۔خدا کرے وہ صحتمند اور بسلامت رہیں۔ اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ نواز شریف صاحب اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین ، غزہ میں تازہ ترین خونریزی اور مسئلہ کشمیر کا تذکرہ کرنا نہ بھولے۔ یہ تینوں عناصر تو وطنِ عزیز کی خارجہ پالیسی کے مستقل ستون ہیں ۔
نواز شریف نے جب اپنے خطاب میں یہ کہا کہ پاکستان کو اپنے سبھی ہمسایوں سے بہتر تعلقات استوار کرنے چاہئیں کہ اِس کے بغیر پاکستان کا ترقی کی جانب گامزن ہونا دشوار ہے تو اِس سے یار لوگوں نے قیافے کے یہ گھوڑے بھی دوڑائے ہیں کہ نواز شریف حسبِ سابق بھارت سے اچھے تعلقات بنانے کے خواہاں ہیں۔اب جب کہ جناب محمد نواز شریف دھڑلے سے وطن واپس آ چکے ہیں اور ان کی حفاظتی ضمانت بھی کل (24اکتوبر بروز منگل ) تک ہے ، نواز شریف کے کئی صلاح کار بھی منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔
یہ خود ساختہ صلاح کار عظیم مصلح کے روپ کی شکل میں منظرِ عام پر آئے ہیں۔ یہ صلاح کار نواز شریف کو از خود صلاح دے رہے ہیں کہ نواز شریف پر لازم ہے کہ وہ اپنے سیاسی معاندین اورمخالفین کو معاف کر دیں اور انھیں اپنے پروں کے نیچے لے لیں تاکہ مل جل کر ملکی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے ۔
بظاہر تویہ صلاح کاری مستحسن ہے مگر بین السطور اِس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ ایک صاحب کی نون لیگ کے خلاف جملہ معاندت و مخاصمت کو فراموش کرکے اسے جیل سے چھٹکارا دلایا جائے۔ یہ تاریخی بات مگر یاد رکھی جائے کہ جب ظلم و تعدی کرنے والے کو معاف کر دیا جائے تو وہ سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ مجھے معاف کیا جانا دراصل میرا استحقاق تھا ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس