میاں نواز شریف نے تقریر کے آغاز میں جو سلامیہ شعر پڑھا وہ ہماری 75 سال تاریخ کا غماز تھا۔ پچھتر سال کے المیے اور حادثے بھلا ایک تقریر میں کیسے سما سکتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک کے جمہوری نظام، جمہور اور جمہور کے نمائندہ سیاست دانوں کو اقتدار سے روکنے اور لوگوں سے دور کرنےکیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ان کی تفصیل بہت دردناک اور شرمناک ہے کہ یہ ظالمانہ عمل کسی فردِ واحد کے خلاف نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے وطن کی تعمیر اور اہلِ وطن کی توقیر شدید متاثر ہوئی۔ وسائل سے بھرا ملک دنیا کی کمزور ترین معیشت بن کے غیروں کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور ہوا۔سب سے پہلے پاکستان کی قربانی دینے والے مشرفوں نے اپنے ذاتی مفاد اور چوہدراہٹ کیلئے ملک میں ایسی شرانگیزفصل کاشت کی جس نے ہمارے احساس کو مجروح اور مجموعی تاثر کو بے آبرو کیا ۔ہم سیدھے سادے پرامن لوگ تھے، ہنستے کھیلتے، دکھ سکھ سانجھے کرتے زندگی کر رہے تھے، ہمارے چہروں پر انتہاپسندی کا ٹھپہ لگا کر ہماری بولی لگائی گئی اور پھر ہمیں عقائد اور گروہوں میں تقسیم کرکے تنہا کر دیا۔عقل و شعور اور تہذیب و تمدن سے دور کر دیا گیا۔اپنی اقدار سے محبت اور زمین سے جڑت بھی معدوم کر دی گئی۔ میاں نواز شریف نے یہ تمام کہانی نہیں دوہرائی شاید انھیں خبر ہے کہ حالات کے اس کڑے وقت نے یہ کہانی سب پر عیاں کر دی ہے۔کبھی کبھی گانے بھی قوموں کی زندگیوں کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں جیسے،
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں
لیکن انہوں نے شکوے شکایات اور گالی گلوچ پر وقت اور اخلاقیات قربان کرنے کی بجائے تہذیب و شائستگی کا مظہر رویہ اپنایا، مجھے ہمیشہ سیاستدانوں سے یہ گِلہ رہتا ہے کہ وہ اپنی تقاریر میں اپنے سیاسی عزائم اور منشور پر بات کرنے کی بجائے مخالفین کی ذات کو نشانہ بنانے پر اکتفا کرتے ہیں۔دوسرا پچھلے کچھ عرصے سے سیاسی تقاریر میں مضحکہ خیزی، تضحیک، تذلیل اور گالی گلوچ کو باقاعدہ پروان چڑھایا گیا، سیاسی اختلاف کی بجائے نفرت اور حقارت پر مبنی غیر اخلاقی بیانات دیے جاتے رہے۔ سیاستدان کا دوران تقریر رویہ کسی فحش گو کا ہوتا جو دوسروں کا مذاق اڑا کر مجمع کو خوش کرتا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ طور سوشل میڈیا کی وساطت سماج کے رویوں میں بھی دکھائی دینے لگا۔ ہماری اُجلی اخلاقی قدریں مَیل کچیل کے غبار میں کھونے لگی تھیں تو فکر کرنے والے فکرمند رہنے لگے کہ معاشی کنگالی تو درست ہو سکتی ہے اخلاقی گراوٹ کو بدلنے میں مدتیں درکار ہوتی ہیں۔جمہوری نظام میں کسی سے بدلہ نہیں لیا جاتا بلکہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لوگوں کی حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ یوں ایک نئے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔آئندہ انتخابات میں اپنے اپنے منصوبوں اور منشور کی فہرست لے کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔صرف مد مقابل پر تنقید کارگر ثابت نہیں ہوگی۔ قدرت کا اپنا نظام اور فیصلے ہیں۔ اپنی مرضی پر مشتمل عمارت تعمیر کرنے کا خواہشمند کاریگر اپنے دماغ میں صرف خاکے بنا کر اتراتا رہتا ہے۔ پھر ایک دن مصنوعی طور پر پیدا کردہ سب ہیجان غائب ہو جاتا ہے اور شفاف منظرنامے میں سب چیزیں اپنی جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ بڑے بول بڑا عذاب بنتے ہیں۔ آج تمام بڑے بول بولنے اور اونچے دعوے کرنے والے شرمندگی کی دُھول اوڑھے منظر سے اوجھل ہیں اور جسے ہمیشہ کیلئے اقتدار سے محروم کرنے کی سخت منصوبہ بندی کی گئی تھی، جمہور کی محبت اور احترام کے دائرے میں ہے۔خدا کرے آئندہ کبھی کسی ہنگامی فرمان یا آرڈیننس کے نتیجے میں حکومت وجود میں نہ آئے بلکہ شفاف انتخابات کے ذریعے عوامی اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل ہو، سیاست دانوں کے جلسوں سے ملک کی فضائیں مہکتی رہیں کہ کوئی سیاستدان کبھی عوامی مفاد اور زمینی حقائق کے خلاف نہیں جاسکتا کیونکہ اس نے ہر حال میں عوام کی عدالت سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ لاہور کے کامیاب جلسے کی کامیابی پر مریم نواز کی مہینوں پر مشتمل کارکردگی کو سراہنا ضروری ہے انھوں نے ملک بھر کے نمائندوں اور کارکنوں سے رابطے کی بھرپور مہم چلائی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ وہ ایک ان تھک اور کمیٹڈ رہنما کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب رہیں۔عورت بنیادی طور پر ماں ہے۔اس کے ہر رشتے میں مامتا کی مہربانی، شفقت اور خیر دکھائی دیتی ہے۔ اپنے باپ کا ماتھا چومتی مریم نواز اچھی لگی۔ شکر ہے میاں نواز شریف نے کالا ماسک اتار دیا۔ہم ٹی وی اسکرینوں پر کالے رنگ کی پرچھائیں دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔سفید کبوتر والی علامتی کہانی دلکش ہے، نہ ملک کے اندرکسی سے لڑنا ہے اور نہ ہمسایوں سے جنگ کرنی ہے مگر فلسطین جیسے معصوم لوگوں کی حمایت جاری رکھنی ہے۔مجھے لگتا ہے شعر کا دوسرا مصرعہ پنڈال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کیلئے تھا جنہوں نے سازش کی لمبی کہانی بُنی اور اسے کئی سال بیچتے رہے۔انھیں سلام کرنا ہی بنتا تھا وہ سلام جو اپنے اثبات کا مظہر ہو۔
بشکریہ روزنامہ جنگ