قائد اعظم، پاکستان اور فلسطین  : تحریر پروفیسر نعیم قاسم


پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کے خلاف اتحادیوں کی امداد کے بدلے عربوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خودمختار عرب علاقے سونپ دئیے جائیں گے عربوں کا مطالبہ تھا کہ فلسطین کو بھی آزاد عرب ریاست کا درجہ دیا جائے مگر جب جنگ اختتام کو پہنچی تو فلسطین کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا تو اس نے اعلان با لفور پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری شروع کر دی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو جرمنی، پولینڈ اور آسٹریا سے نکال کر فلسطین بھیجا گیا اور اس طرح ان کی عددی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا _تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں جلسے جلوس منعقد کئے 1918 سے لے کر 1947 تک مسلم لیگ کونسل کے ہر اجلاس میں فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لیے قرارداد یں منظور کی گئیں 1937 میں جب برطانیہ نے فلسطین کی تقسیم کی تجویز کو پیش کیا تو قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی شدید مذمت کی اور برطانیہ کو متنبہ کیا کہ عربوں سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی پر شدید ردعمل ہو گا اور برصغیر کے مسلمان عربوں کی حمایت میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے 1944 میں آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا “اگر یہودی عناصر کے دباؤ کے تحت صدر روز ویلٹ برطانیہ کو فلسطین کے سوال پر عربوں سے نا انصافی کرنے پر مجبور کر تے ہیں تو یہ فیصلہ مسلم دنیا کے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگا دے گا آگر یہودیوں کی آباد کاری جاری رہی تو پوری اسلامی دنیا کے عوام اس ناجائز قبضہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ”
آج قائداعظم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہو رہی ہے مسلم لیگ نے 48_1947 کے دوران بار بار بلفور کے اعلان کے خلاف یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری اور فلسطین کی دو حصوں میں تقسیم، فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی بے اصولی پر مبنی یہود نواز پالیسیوں کے بارے میں قرار داد یں منظور کر کے دنیا بھر میں بھیجیں 1940 میں قرار داد لاہور کے عظیم اجتماع میں بھی فلسطینیوں کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی پاکستان وجود میں آیا تو بین الاقوامی سطح پر پر سب سے پہلے جس مسئلہ نے پاکستان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی وہ فلسطین کا مسئلہ ہی تھا 1947 میں اقوام متحدہ کے ارکان ممالک 56 تھے مسئلہ فلسطین پر غور کرنے کے لیے ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چئیرمین پاکستان تھا افعانستان اور چھ عرب ریاستوں کو بھی کمیٹی میں رکھا گیا کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کر تے ہوئے وحدانی نظام کا طریقہ تجویز کیا اور کہا کہ فلسطین میں موجود یہودی اقلیت سے مناسب سلوک کی ضمانت حاصل کی جائے گی اور باہر سے آنے والے یہودیوں کو یورپ کے مختلف ممالک میں بسانے کا بندوبست ہونا چاہیے یا وہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس بھیج دئیے جائیں کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے فلسطین کی تقسیم کا حل بے حد غیرمنصفانہ اور مستقل عزاب قرار دیا انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا قیام مسئلے کا حل نہیں ہو گا بلکہ یہ سنگین تر مسئلے کا موجب بنے گا اور آج ایسا ہی ہو رہا ہے سب کمیٹی کی رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی ووٹنگ میں 33 ارکان کا ووٹ تقسیمِ کے حق میں آیا تو برصغیر کے کے مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ تھا کیونکہ بہت سارے ممالک نے امریکی دباؤ پر تقسیم کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا قائد اعظم نے امریکی صدر ہنری ٹرومین کو ٹیلی گرام بھیجا کہ وہ عربوں کو ان علاقوں سے محروم نہ کریں جہاں وہ دو ہزار سال سے رہ رہے ہیں اکتوبر 1947 میں قائد اعظم نے رائٹر کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ مغربی ممالک تقسیم کے منصوبے کو اصولی بنیادوں پر مسترد کر کے کوئی منصفانہ حل تلاش کریں گے کیونکہ فلسطین کی تقسیم کا حل تاریخی، سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے 27 اگست 1947کو قائد اعظم نے کہا کہ پاور پالیٹکس کا جو ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں سٹیج کیا جا رہا ہے انصاف پسند اقوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تا ہم مسلمان مشترکہ قوت سے ہی ان سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے باوجود اسرائیل کی ناجائز ریاست 14 مئی 1948 کو وجود میں آ گئ تو پاکستان نے اس کو آج تک نہ تسلیم کیا اور نہ ہی اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا پاکستان آج تک دامے درمے سخنے استقلال کے ساتھ فلسطین کے حق خود ارادیت کی حمایت میں کھڑا ہے جبکہ بیشتر عرب ممالک نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں بلکہ اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بھی قائم کرچکے ہیں
1974میں اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی تو پاکستان نے بطور میزبان فلسطین کے سوال کو خوب اٹھا یا اور قرارداد منظور کروائی کہ 1_عرب علاقے اسرائیل قبضے سے آزاد کرے 2_بیت المقدس کا حقیقی درجہ بحال کیا جائے 3_پی ایل او کو فلسطینی قوم کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے
لاہور کی اسلامی کانفرنس میں یاسر عرفات تشریف لائے تو پاکستان کے عوام نے ان کو خوب دل پزیر ی سے نوازا اور سربراہ مملکت کے طور پر ان کو پروٹوکول دیا گیا اس موقع پر ذوالفقارعلی بھٹو نے علامہ اقبال کے جذبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 1937 میں ہی واضح کر دیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کے مضمر ات پوری اسلامی دنیا میں مرتب ہوں گے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہوئے 1948 سے لے کر 1973 کی عرب اسرائیل جنگوں میں فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے بین الاقوامی سطح پر انصاف کے لیے کوششیں کیں پاکستان نے ہر موقع پر فلسطین کو مکمل مادی اور فوجی امداد کی پیشکش کی مادی امداد فراہم کرنے میں الخدمت بھرپور کوشش کر رہی ہے مگر غزہ کے مظلوم عوام کے لئے پاکستان سمیت ہر ملک کو ایران کی تقلید کرنی ہوگی آگر امریکہ اسرائیل کی بھرپور فوجی امداد کر رہا ہے تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو بھی مظلوم فلسطینی عوام کو اپنے تحفظ کے لیے سیاسی اور اخلاقی امداد کے علاوہ فوجی امداد بھی فراہم کر نا ان کا اولین فریضہ ہے آخر وہ بیت المقدس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسر پیکار ہیں جو دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے 29 جنوری 1976 کو فلسطین کے مسئلہ کی اہمیت کو ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ اسطرح بیان کیا جو آج بھی مسلمہ حقیقت ہے “سوال یہ ہے کہ عرب مسئلے کا مرکز کہاں ہے؟ مرکز نہ مصر ہے، نہ الجیریا، یا سوڈان ہے اور نہ ہی پاکستان _عرب اسرائیل مسئلے کا مرکزی مقام فلسطین ہے _فلسطینی عوام کے حقوق بنیادی مسئلہ ہیں _ان کا مسئلہ فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام ہے”
پاکستانی عوام کشمیر کے مسئلے کے ساتھ فلسطین کے مسئلے کو بھی اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد پر آمادہ ہیں مگر افسوس صد افسوس مسلم ممالک کی بے حمیتی پر ہے کہ چالیس ممالک کی اسلامی فوج کیا صرف ایران اور یمن کے مسلمانوں کے خلاف بنائی گئی ہے جب کہ پوری مغربی دنیا اور امریکہ بہادر خم ٹھوک کر اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ غزہ کے مظلوم عورتوں، بچوں اور جوانوں کو شہید کیے جا رہے ہیں مگر مسلم دنیا کے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے منتظر فردا ہیں انہیں کب احساس ہوگا “غیرت ہے بڑی چیز اس جہان تگ و دو میں”