مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی تقریبا چار برس بعد وطن واپسی یقینا بہت اہم واقعہ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اب ان کی پارٹی سیاسی اور انتخابی حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے تیسرے دور اقتدار میں سی پیک سمیت بہت سارے ترقیاتی کام ہوئے اور ملک کی معاشی سمت بھی درست ہوتی نظر آئی مگر اسٹیبلشمنٹ ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی، پہلے نااہل کرایا پھر جیل میں ڈال دیا، قسمت نے ایک بار پھر ساتھ دیا اور وہ قید خانے سے نکل کر قطر کے شاہی طیارے میں لندن چلے گئے، یوں تو نواز شریف کو تین مرتبہ اقتدار سے بے دخل کیا گیا مگر 2011 میں پورے زور و شور کے ساتھ شروع کیے جانے والے پراجیکٹ عمران خان کا مقصد تو ان سمیت روائتی سیاستدانوں کا وجود مٹانا تھا، منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا لیکن ملک اور اداروں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، غلط ہی سہی لیکن یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ نواز شریف کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنی (حقیقت اس کے برعکس ہے آرمی چیفس کی کسی وزیراعظم سے نہیں بنی) اپنی وزرات عظمی کے پہلے دو ادوار میں تو نواز شریف کسی حد تک اپنے اختیارات اور ملکی معاملات کے حوالے سے فوجی سربراہوں سے بحث مباحثہ کرتے پائے گئے لیکن تیسرے دور میں تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ ایسا کوئی موقع ہی پیش نہ آئے۔ حتی کہ ڈان لیکس جیسا معاملہ جو اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی کارستانی تھی، اس پر بھی الٹا اپنے ہی وزیر، مشیر قربان کر کے مٹی ڈالنے کی کوشش کی، اس دوران سپانسرڈ دھرنوں، دنگوں، عدالتوں کے جانبدارانہ غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلوں اور میڈیا کی متعصبانہ ٹارگٹ مہم کے ذریعے جو شر انگیزیاں پھیلائی گئیں وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں، اب جب کے نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں تو یہ تاثر عام ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین، سعودی عرب، قطر سمیت دوست ممالک بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی عمل میں مسلم لیگ ن کو شرکت کیلئے بھرپور مواقع دئیے جائیں، اصل بات یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کا ازالہ کیسے ممکن ہو گا، کیا ادارے مسلم لیگ ن کو بھی اسی طرح کی سپورٹ دیں گے جیسی 2018 کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کو دی گئی تھی، عملا ایسا ہونا ممکن نہیں، اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کو مسلط کرنے کیلئے ملک میں اداروں سمیت ہر سطح پر تقسیم پیدا کرنا ہے، ظاہر ہے تقسیم کا یہ عمل جڑیں پکڑ چکا ہے اس پر فوری طور پر قابو پانا ممکن نہیں، اس میں اچھا خاصا وقت لگ سکتا ہے،
صرف ایک مثال عدلیہ کی ہے جہاں لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا سے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تک کے ادوار میں مختلف ہائی کورٹس میں ججوں کی بھرتیاں آپریشن نیا پاکستان کو پیش نظر رکھ کر کی گئی ہیں، کیا عجیب منظر ہو گا کہ اگلی حکومت ن لیگ کی ہو اور چیف جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اور لاہور ہائی کورٹ سے جانے والے جونیئر بن جائیں، اس کے علاوہ بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں کارٹلز (بڑے کاروباری طبقات) کو ملک میں وہی نظام سوٹ کرتا ہے جس میں ان کے مالی مفادات کے سامنے آئین و قانون کوئی اہمیت نہ رکھتے ہیں، یہ بھی ماننا ہو گا کہ عمران خان ماڈل (ہائبرڈ نظام) کے سبب اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہو چکا ہے، اس کے اثرات صرف پبلک سیکٹر میں نہیں پرائیویٹ سیکٹر کے ہر شعبے میں بہت بھی واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں، خیر یہ تو الیکشن اور اسکے بعد کی باتیں ہیں، اصل نکتہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت کا بنیادی فرض ہے کہ عوام سے رابطے میں رہے، اس مقصد کیلئے موثر تنظیم اور پروگرامات میں تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے، مسلم لیگ ن کو اس حوالے سے اس وقت بھی کمزور پایا گیا جب وہ 2013 سے 2018 تک حکومت میں تھی۔ میڈیا، سوشل میڈیا جو اس وقت بہت بڑا ہتھیار بن چکے ہیں ان کے حوالے سے بیزاری کی حد تک غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، وکلا ونگ، طلبہ ونگ، یوتھ ونگ، تاجر ونگ سمیت تمام شعبوں میں افرادی قوت اور وسائل موجود ہونے کے باوجود سر ے سے بری طرح نظر انداز کیے گئے، مسلم لیگ ن یا کوئی اور سیاسی جماعت جس نے بھی اپنے پارٹی سٹرکچر اور تنظیم سازی سے مختلف شعبوں کو مضبوط بنایا ہو، اسے کوئی افتاد پڑنے پر بھی بہت زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، نواز شریف کی واپسی کے بعد بھی روائتی سستی اور تاخیری حربوں سے کام لیا گیا تو پارٹی الجھ کر رہ سکتی ہے، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس وقت بھی کئی حلقے نواز شریف کی واپسی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، سب جان چکے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کو روکا نہیں جا سکتا، تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کا مقصد مسلم لیگ ن کو خاص حدود کے اندر رکھنا ہے، نواز شریف کو ہر راہ چلتے سے مشورہ مانگنے کے بجائے یہ دیکھنا ہو گا کہ عوام کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے، مردم شناسی کی حد اگر مشاہد حسین ہے تو پھر انہی کی زبان میں پرانی بات یاد کرائے دیتے ہیں کہ میاں صاحب آپ کے کڑاکے نکل جائیں گے، کوئی بھی شعبہ ہو دوست، دشمن کی شناخت کرنا ہو گی، آپ کی حکومت کا تو یہ حال رہا کہ صحافی محمد مالک کو ایم ڈی پی ٹی وی لگا دیا جس نے حکومت جاتے ہی آپ کے پورے خاندان کو نشانے پر دھر لیا لیکن ہر چوائس بھی غلط نہ تھی ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا لگایا تو انہوں نے نہ صرف چینلوں پر قواعد کا اطلاق کرنے کی کوشش کی بلکہ میڈیا میں فیض حمید نیٹ ورک کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا، سب سے پہلے اپنی پارٹی اور اس کے مختلف شعبوں کو مضبوط بنائیں، سیاسی جماعتیں بھی ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں انہیں بکھرنا نہیں چاہیے، یہ زعم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی میدان میں نہیں، اصل کوتاہی تو یہ ہے کہ آپ کی اور آپ کی پارٹی کی کمزوریوں کے سبب ایک جھوٹے اور جعلی لیڈر کو اپنے پیرو کاروں کی نگاہوں میں مسیحا بننے کا موقع ملا۔ نو مئی نہ بھی ہوتا تو پی ٹی آئی کی حکومت میں واپسی ناممکن تھی، جو عناصر آپ کو عمران خان سے صلح کا مشورہ دے رہے ہیں ان سے بچ کر رہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ آپ واپس آتے ہی ایسی کوئی حرکت کر کے خود بھی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پوزیشن پر آ جائیں، قانون کو مطلوب سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کا معاملہ عدالتیں میرٹ پر طے کریں، اگر کوئی کلیئر ہو کر آتا ہے اس سے ورکنگ ریلیشن بنانے میں کوئی ہرج نہیں لیکن یہ طے ہے کہ آپ نے اس بار بھی اپنی پارٹی کو مضبوط اور فیصلہ سازی کو شفاف نہ بنایا تو چوتھی بار اقتدار کا راستہ کھلنے کا معجزہ ایک فیصلہ کن المناک انجام سے دوچار ہو سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات