سیاسی امور پر نگاہ رکھنے والے میرے کئی دوست بدھ کی صبح سے حیران ہوئے چلے جارہے ہیں۔ تین سے زیادہ برس لندن میں ٹکے رہنے کے بعد مسلم لیگ (نون) کے قائد نواز شریف نے 21اکتوبر کے روز وطن لوٹنا ہے۔لاہور ایئرپورٹ اترنے کے بعد وہ جاتی امرامیں کچھ وقت قیام کے بعد مینارِ پاکستان کے سائے تلے جمع ہوئے ہجومِ مداحین سے خطاب کا ارادہ باندھے ہوئے ہیں۔
نواز شریف ایک قدآور سیاسی رہنما ہیں۔ میں ان کے اندازِ سیاست سے بہت متاثر نہیں۔ 1990اور 1997میں قائم ان کی دونوں حکومتوں کے دوران بطور صحافی کڑا وقت بھی بھگتا ہے۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ 2016میں مقتدر کہلاتی چند قوتوں نے انہیں نہایت مکاری سے عدالتی تحقیق وتفتیش کی جانب دھکیلا۔ اس کے انجام پر نواز شریف کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرادیا گیا۔ بعدازاں احتساب کے حوالے سے قائم ہوئے چند مقدمات کی بنیاد پر انہیں سزائیں سنانے کے بعد طویل مدت کیلئے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
انہیں زنداں کے سپرد کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد مگر ہماری ریاست کے مالکوں کو اچانک دریافت ہوا کہ تین بار وطن عزیز کے وزیراعظم رہے نواز شریف کی صحت شدید خطرات سے دوچار ہے۔گھبراہٹ میں انہیں جیل سے نکال کر پہلے ہسپتال اور بعدازاں لندن بھجوادیا گیا۔ہماری تاریخ میں پہلی بار کسی سزا یافتہ مجرم کو ایسی سہولت میسر ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ تاریخ ساز سہولت ان دنوں منظر عام پر آئی جب انصاف کے نام پر قائم ہوئی تحریک کے بانی جناب عمران خان پاکستان کے وزیراعظم تھے اور مقتدر کہلاتی قوتیں ان کے ساتھ سیم پیج پر ہونے کی بدولت بہت شاداں محسوس کررہی تھیں۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ بدھ کی صبح سے مسلسل حیران ہوتے میرے دوستوں کی اکثریت تحریک انصاف کے جذباتی مداحین پر مشتمل ہے۔نہایت دکھی دل کے ساتھ وہ سوال اٹھارہے ہیں کہ نواز شریف کے وکلا نے سابق وزیراعظم کی وطن آمد کے بعد زندگی آسان بنانے کے لئے بدھ کے دن حفاظتی ضمانت کے لئے جو درخواست جمع کروائی اسے فی الفور سماعت کے لئے بنچ کے روبرو کیوں بھجوادیا گیا۔انصاف کی فراہمی کے لئے ایسی سہولت یقینا میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ قانون مگر سب کے لئے ہرگز برابر نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں اگر آپ کے ذہن میں کوئی شبہ ہے تو وہ دن یاد کریں جب عمر عطابندیال کے سپریم کورٹ نے عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے معاملے کو انصاف کے ترازو میں ہنگامی انداز میں تولنے کافیصلہ کیا تھا۔عدالت لگاتے ہی گرفتار ہوئے ملزم کو فورا سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرنے تقاضہ ہوا۔ گرفتار ہوئے عمران خان اس فیصلے کے بعد قیدیوں کی وین میں نہیں بلکہ پروٹوکول والی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر کسی غیرملکی سربراہ کی مانند سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔ وہ عدالت تشریف لے آئے تو ان دنوں کے چیف جسٹس نے ان کا گڈ ٹو سی یو کہتے ہوئے خیرمقدم کیا۔ ہماری تاریخ میں انصاف کی اس انداز میں فراہمی بھی شاذہی دیکھنے کو ملی تھی۔
عمران خان کے ساتھ عمر عطا بندیال کی جانب سے اختیار کردہ نازبرداری کو سوکنوں کی طرح کوسنا مقصود نہیں۔ سینے پر بھاری پتھر رکھتے ہوئے محض اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں قانون ہر ایک کے لئے ہرگز برابر نہیں ہوتا۔قانون فقط اس ریاست میں ہر ایک کے لئے برابر ہوسکتا ہے جہاں کے عوام رعایا نہیں حقوق وفرائض کے حامل شہری شمار ہوتے ہیں۔میرے اور آپ جیسے پاکستانی حقوق وفرائض کے حامل شہری نہیں بلکہ رعایا ہیں۔ ہمارے برعکس اشرافیہ ہے۔ عمران خان ہوں یا نواز شریف ان دونوں کا تعلق اشرافیہ ہی سے ہے۔یہ طبقہ یعنی حکمران اشرافیہ گزشتہ کئی برسوں سے آپ اور میرے جیسے عام پاکستانی کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ اختیارات واقتدار پر کامل گرفت کی جنگیں لڑنے میں مصروف ہے۔ 2016سے یہ جنگ نواز شریف مسلسل ہارنا شروع ہوگئے۔ ان کی مخالفت میں ابھرے مقتدرہ سے تعلق رکھنے والوں کو عمران خان کی صورت پر اکسی جنگ لڑنے کو ایک دیدہ ور بھی مل گیا۔
اکتوبر2021کے دوران مگر سیم پیج کی برکتوں سے فیض یاب ہورہے عمران خان خود کو قوت اور اختیار کے یکا وتنہامالک تصور کرنا شروع ہوگئے۔ان کی خوش گمانی کو جھٹکالگانے ان کی مخالف سیاسی قوتیں باہمی اختلافات بھلاکر یکایک یکجا ہوگئیں اور بالآخر انہیں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد وزارت عظمی سے فارغ کروادیا گیا۔ اقتدا ر سے فراغت کے باوجود عمران خان حکمران سسٹم میں موجود کئی طاقت ور افراد کے لاڈلے رہے۔دوسروں کا ذکر چھوڑیں ان کے دیرینہ مداح ہونے کے دعوے دار قمر جاوید باجوہ بھی بطور آرمی چیف عمران خان کی جانب سے میر جعفر پکارے جانے کے باوجود صدرعلوی کی معرفت ان سے ملاقاتوں کے ذریعے تحریک انصاف کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ عمرعطا بندیال کی سپریم کورٹ نے بھی عمران خان کے ساتھ متعدد بار حیران کن شفقت کا مظاہرہ کیا۔مقتدر کہلاتی قوتوں نے اب ایک بار پھر پارٹی بدل لی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ اب درگزر کا رویہ اختیار ہوا نظر آرہا ہے۔بدھ کے دن سرعت سے میسر ہوتا انصاف اس نئے رویے کا مظہر ہے۔ اس کے بارے میں سوال اٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بے بس رعایا کی طرح فقط نئے تماشے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں اور انتظار کریں کہ یہ کتنے دنوں تک جاری رہتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت