ہم 72 تھے، فتح یاب تھے اور اب : تحریر کشور ناہید


دس لاکھ فلسطینیوں کو 24گھنٹے میں گھر چھوڑنے کا حکم نامہ، اسرائیلی وزیراعظم کو دنیا کے سارے ادارے سمجھا رہے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔ مگر شیطان نے آگے بڑھ کر اردن اور شام کے ہوائی اڈوں پر بھی بمباری کی ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام امن پسند ملک نہ صرف اس بربریت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ چین اور روس نے یہ حل تجویز کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کو دو علیحدہ ملکوں میں تقسیم کیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ فلسطینی توپہلے سےیہاں آباد تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے ہولو کاسٹ نے جب جرمنی سے یہودیوں کو نکالا اور انہیں مصر سے منسلک آبادی کا نام دیا۔ یہودیوں کی فسطائیت نے آہستہ آہستہ فلسطینیوں کیلئے غزہ کے کناروں کی جگہ چھوڑی اور یوں تین چوتھائی فلسطین پر قابض ہو کر بھی یہودی چین سے نہ بیٹھے امریکہ کے شانے پر سر رکھ کر جب چاہتے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھتے مسلمانوں پہ بے دریغ گولیاں چلا دیتے، جب چاہتے ان کی بستیوں کا پانی بند کر دیتے جب چاہتے مذہبی تقریبات کو تہس نہس کر دیتے۔ ایسےظلم کےلمحات میں یاسر عرفات آگے بڑھ کر مصالحت کرواتے۔ رملہ میں جب ان کے گھر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا وہ بیروت میں رہنے لگے۔ یہ بات بھی 30برس پہلے کی ہے۔ ان تیس برسوں میں فلسطینیوں پر بار بار اسرائیلیوں نے چڑھائی کی۔ پہلے تو ہمارے پاس فیض احمد فیض تھے کہ’’ سر وادیٔ سینا ‘‘نظم لکھی پھر’’ فلسطینی بچے کی لوری‘‘ بیروت اور رملہ پہ نظمیں ۔ اب میں فیض صاحب کے تتبع میں نظم آپ کے حوالے کر رہی ہوں ’’سر وادیٔ سینا‘‘

جب برق فروزاں تھی، لیبیا اور شام تباہ کیے جا رہے تھے ہم خامو ش تھے/ جب اوسلو میں یاسر عرفات سے جبراً معاہدہ کروایا گیا تھا/ ہم خاموش تھے مگر خوش تھے/ کہ اپنی زمین فلسطین کے مالک و مختیار ہو نگے/ ہم خوش تھے کہ مسجد اقصیٰ ہماری ہو گی/ اب صہیونیوں کے قرابت دار اک اور جال سامنے لے آئے/ تیل کے کنوؤں والے ملکوں کو قدامت چھوڑ کے جدید بننے کے جام سامنے رکھے/وہ اپنے صحراؤں کو شبستانوں میں بدلنے کے لئے/ابھی منہ کھولنےوالے ہی تھے/ کہ حماس نے ا نکار کا پرحم اٹھا کے للکارا/ مگر امریکی اطاعت میں شرابور مسلم امہ، اپنی اپنی مصلحت اوڑھ کے خاموش رہی /کسی ساحل پہ کوئی پتوار نہیں کھلا/ نعرہ مستانہ تو کیا/ زخمی پرندے کی چیخ بھی سنائی نہیں دی/ دنیا نے دیکھا کہ صہیونیوں نے چالیس بچوں کے سر قلم کر دیئے/ ہم وہی تھے جو تعداد میں 72 تھے/ پھر بھی جیت گئے تھے/ اور اب اربوں ، گونگے، بے ضمیر ، ساری دنیا میں خاموش ہیں/ اب کوئی ڈھونڈ کے لاؤ، کوئی فیض کوئی محمود درویش / کہ یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے۔

مگر نظم لکھنے سے اپنے سینے کا درد تو شاید کم ہو جائے۔ فلسطینیوں کوبے گھر بے در کرنے والوں کو دنیا بھر کے اداروں کی مدد کی آوازیں بھی بے سود جا رہی ہیں کہ فلسطینی دم اور سانس کے ٹوٹتے لمحوں کو روکنے کیلئے کہیں سے نان جوس کہیں سے پانی کی بوند حاصل کر سکیں۔ جب کہ مصر نے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں کہ جنوبی غزہ کے علاقے کے لوگ پناہ لے سکیں۔ ابھی وہی ڈرامہ کہ کبھی روسی تجویز کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور کبھی امریکی آگے بڑھ کر ہمارے مشرق میں گھوم رہے ہیں۔ ادھر دس دن سے صہیونی بم برسائے جا رہے ہیں۔ پھر پرانی تجویز کہ 1967والے معاہدے پر دوبارہ عمل کیا جائے جبکہ یہودی سارے احکامات اور قراردادوں کے باوجود 140 بستیاں تعمیر کر چکےہیں۔ جو پانی فلسطینیوں کو ملتا ہے وہ بھی یہودیوں کی اجازت سے ملتا ہے۔ غزہ کے کنارے کی ساری انگور کی فصلوں پر یہودی قابض ہیں۔ یہ تو کسی نہ کسی حملے کے حوالے سے کبھی گولان کی پہاڑیوں میں نئی بستیاں بنا لیتے ہیں ۔یروشلم شہر کے دو دروازے ہیں۔ دوسرے دروازے سے صرف یہودی اندر جا سکتے ہیںغرب اردن مشرقی بیت المقدس پر بھی ان کی بستیاں آباد ہیں۔

ہر چند پورے فلسطین پر 1930سے مسلمان آباد تھے۔ کہیں کہیں یہودیوں کی آبادی تھی مگر اب کشمیر کی طرح فلسطینیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب کبھی لڑائی چھڑتی ہے تو ساری دنیا مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سر جوڑ کر بیٹھتی ہے۔ پھر وہی ایجنڈا۔ آباد کاری، غذا کی فراہمی، بچوں کا تحفظ وغیرہ وغیرہ۔ ہمیشہ کی طرح یتیموں ، بیواؤں، بے گھروں کو ملا کر خیمہ بستی بنائی جاتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ فلسطین کے ظاہری صدر محمود عباس، اپنے لوگوں کی ہزیمت اوربربادی پہ کچھ نہیں بول رہے۔ وہ بھی شام کے صدر کی طرح روبوٹ بنے بیٹھے ہیں۔ ادھر دیکھیں تو اردن میں بھی بادشاہت ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ بہت سے فلسطینیوں کو آباد کیا ہے ۔ مگر وہ ساری عمر مہاجر ہیں۔

اس وقت جب خود یہودی لوگ اور ساری دنیا کی قومیں روز فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہی ہیں اور موساد کے بندے گولے برسائے جا رہے ہیں۔ الزام لگائے جا رہے ہیں کہ فلسطینی علاقوں میں حماس نے سرنگوں میں اسلحہ خانے بنائے ہوئے ہیں۔

اتنے دن گزرنے کے بعد، صدر مملکت نے عمومی احتجاجی خط تحریر کیا ہے اور جیلانی صاحب نے دنیا کی پریس کے سامنے منہ کھولا ہے۔ ورنہ جنگ کی اصل صورت کو سمجھنے کیلئے ہم سب کو الجزیرہ دیکھنا اور صورت حال کو سمجھنا اور نوحہ گری کرنی پڑتی ہے۔ فلسطینیوں کی اس دربدری پر ایک غزل کے چند شعر (غزل ابھی جاری ہے)

جوئے خوں، قسمت ِمحشر ہے کہاں جا کے رہیں

خاک و خوں اپنا مقدر ہے کہاں جا کے رہیں

اے فلک تو نے ہمیں کوئے خجالت بخشا

اب تو رستہ ہے نہ رہبر ہے کہاں جا کے رہیں

بھول جائیں کہ مقدر میں بہاریں تھیں کبھی

آبلے اپنا مقدر ہیں کہاں جا کے رہیں

بشکریہ روزنامہ جنگ