صورتحال : تحریر الطاف حسن قریشی


بدقسمتی سے آج ہمارے فلسطینی بھائی جن انسانی المیوں سے گزر رَہے ہیں، ایک زمانے میں برِصغیر ہند کے مسلمان بھی نہایت دردناک واقعات سے گزرتے رہے تھے۔ اُنہوں نے نوے سال تک انگریزوں اور ہندوؤں کی اُن کوششوں کے خلاف ایک پُرعزم اور آئینی جدوجہد کی تھی جو مسلمانوں کا وجود ختم کرنے پر تُلی ہوئی تھیں۔ ہم اپنے کالموں میں اُس عظیم داستانِ حریت کا احوال اِس خیال سے بیان کر رہے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو اِس حقیقت کا پورا شعور حاصل ہو جائے کہ حصولِ پاکستان کی خاطر ہندوستان کے مسلمانوں کو اِنتہائی مشکل مقامات سے گزرنا پڑا تھا اور اُنہوں نے آزادی کی بہت بھاری قیمت ادا کی تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب فلسطینی اپنی زمین سے محروم کیے جا رہے تھے اور صہیونی طاقتیں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کر رہی تھیں۔ حضرت قائدِاعظم کو اُن کے دکھوں کا شدید احساس تھا اور اِسی لیے آل انڈیا مسلم لیگ کے ہر سالانہ اجلاس میں فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی جاتی رہی اور جب 1948ء میں اقوامِ متحدہ نے اسرائیلی ریاست قائم کرنے کی منظوری دی تو قائدِاعظم نے اِسے ایک ’’ناجائز بچے‘‘ کی پیدائش قرار دِیا تھا۔

فلسطینی سالہاسال سے غزہ کی ایک چھوٹی سی پٹی میں اسرائیل کے مظالم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ آئےروز اسرائیلی درندے راکٹ فائر کرتے جن سے درجنوں فلسطینی شہید ہو جاتے۔ حماس جو غزہ میں فلسطینیوں کی سیاسی قوت ہے، وہ خاموشی سے ظلم سہتی اور اِسرائیل سے چھٹکارا پانے کی تیاریاں کرتی رہی اور اَکتوبر 2023ءمیں ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے مصداق اُس نے اسرائیل کا غرور خاک میں ملا دیا اور تِل ابیب پر ہزاروں راکٹ برسائے جس سے کہرام سا مچ گیا۔ اِس پر اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو کربلا میں تبدیل کر دیا ہے۔ تمام بین الاقوامی قوانین اور اِنسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے 17؍اکتوبر کو ایک اسپتال پر بم برسائے اور چند لمحات میں 1800 فلسطینی جاں بحق ہو گئے جن میں ساٹھ فی صد بچے اور خواتین شامل تھے۔ غزہ کا اِس طرح محاصرہ کیا گیا ہے کہ وہ بجلی، خوراک اور دَواؤں سے یکسر محروم ہے۔ بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور اَمن کی محافظ طاقتیں بری طرح دہشت زدہ ہیں، تاہم اسرائیل کی سفاکی اور دَرندگی سے ہر طرف ایک بیداری پیدا ہوئی ہے اور اِس کے حامیوں میں زبردست کمی آتی جا رہی ہے۔ دہشت گرد صہیونیوں کے خلاف اب یہودی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اُنہوں نے نیویارک اور وَاشنگٹن میں اسرائیل کے خلاف پہلی بار زبردست مظاہرے کیے ہیں۔ بیشتر مسلم ممالک میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اِسرائیلی حیوانیت کی سخت مذمت کر رہے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر نے فلسطینیوں کے علاج اور اُنہیں امداد فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی سخت پیغام دیا ہے۔ صدرِ ترکیہ نے سعودی ولی عہد سے مشاورت کر کے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہے۔ روس اور چین کی قیادتوں نے اسرائیل کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ روسی صدر نے اسپتال پر حملے کو جرم قرار دِیا ہے۔ خود اِسرائیل کے اندر عوامی رائے تقسیم ہو گئی ہے۔ پاکستان نے اِسے ’نسل کشی‘ قرار دِیا ہے اور اِس کے عوام انگاروں پر لَوٹ رہے ہیں۔ جرمن چانسلر غزہ کے اسپتال پر حملے کی تصاویر دیکھ کر کانپ اٹھے ہیں۔ امریکی صدر نے بیان دیا ہے کہ مَیں اسپتال پر اسرائیلی حملے سے غم زدہ ہوں۔ لبنان میں امریکی سفارت خانے کے سامنے بہت بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس بار ایک ایسی عالمی جدوجہد کامیاب ہو گی جو انسانی المیے کو اِنسانیت کی فتح میں تبدیل کر دے گی۔ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی امریکہ اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کر رہا ہے۔ اگر او آئی سی اور سیکورٹی کونسل بروقت اقدام کے لیے مستعد ہو جائیں، تو فلسطینی اپنا آزاد وَطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اب ہم برِصغیر کے مسلمانوں کی داستانِ حریت کی طرف آتے ہیں جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں فرقہ وارانہ مسئلے کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آئی، تو برطانوی وزیرِاعظم نے اعلان کیا کہ ملکۂ معظمہ کی حکومت فرقہ وارانہ نمائندگی کا تصفیہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرے گی کہ بےپایاں اختیارات کی حامل اکثریت کی دست بُرد سے اقلیتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے دستور میں کیا کیا تحفظات فراہم کیے جائیں گے۔وزیرِاعظم ریمزےمیکڈانلڈنے 1932ء میں کیمونل ایوارڈ کا اعلان کیا جس کے تحت مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کی گئیں اور سندھ کو ایک علیحدہ صوبے کا درجہ بھی دے دیا گیا۔ ہندوؤں نے اِس ایوارڈ کی مخالفت کی جبکہ مسلمانوں نے بعض تحفظات کے ساتھ اِسے قبول کر لیا۔ اُن کیلئے اِس ایوارڈ کا سب سے تکلیف دہ پہلو پاسنگ کا اصول تھا جس کے باعث دو کلیدی صوبوں بنگال اور پنجاب میں اُن کی واضح اکثریت، اقلیت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پنجاب جہاں مسلمانوں کی آبادی 57 فی صد، ہندوؤں کی 27 فی صد اور سکھوں کی 13 فی صد تھی، اُس کی قانون ساز اسمبلی میں اُنہیں صرف 49 فی صد نشستیں ملیں۔ اِسی طرح بنگال میں جہاں مسلمانوں کی آبادی 55 فی صد تھی، اُنہیں اسمبلی میں صرف 48 فی صد نشستیں دی گئیں۔

گول میز کانفرنس کی سفارشات، قرطاسِ ابیض کی صورت میں شائع ہوئیں جن پر برطانوی پارلیمنٹ میں ہفتوں غوروخوض ہوتا رہا اور شاہی منظوری کے بعد یہ مسودہ بالآخر 24جولائی 1935ء کو کتابِ قانون کا حصّہ بن گیا۔ یوں ایک طویل اور جاںگسل سیاسی اور آئینی جدوجہد کے بعد ہندوستان کو ایک مکمل تحریری دستور میسّر آ گیا، مگر برطانوی سامراج نے اِس امر کا پورا پورا اِہتمام کیا کہ اصل اختیارات گورنرجنرل اور صوبائی گورنروں ہی کے پاس رہیں جو اَسمبلیوں اور حکومتوں میں ’’حسبِ ضرورت‘‘ مداخلت کر سکتے تھے۔ سب سے اہم اور نازک مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو نئے دستور میں اقلیت کا درجہ دیا گیا تھا اور اُن کے تحفظ کے خصوصی اختیارات گورنرجنرل اور صوبائی گورنروں کو سونپے گئے تھے جو غیرمسلموں کی طرف داری کے خوگر چلے آ رہے تھے۔ اِس بنیاد پر مسلم برادری اپنے مستقبل کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا رہی جو اَکثریت کی سفاکیت سے بڑی خوفزدہ تھی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ