تب اور اب” : تحریر مرزا تجمل جرال”


یہ سوچے بغیر کے جب ھم کسی کی طرف انگلی اٹھا کر تبصرہ کرتے ہیں تو باقی چار انگلیوں کا رخ ہماری اپنی ہی طرف ہوتا ھے، دوسروں پر تبصرہ کرنا اور برا بھلا کہنا ھمارے مزاج کا حصہ بن چکا ھے،
گذشتہ روز جب پی ٹی آئی کے سابق اور استحکام پاکستان پارٹی کے موجودہ رہنما جناب فرخ حبیب بڑی شدومد کے ساتھ اپنے سابق قائد کو غلط ثابت کرنے میں مگن تھے تو ھمارے ایک عزیز اور کپتان کے(تادم تحریر ) شیدائی کہنے لگے ایک نہیں اس جیسے سو فرخ حبیب بھی کپتان کو چھوڑ جائیں تو اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا
ایک اور صاحب تو اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر بولے یہ سب کیا دھرا ان خفیہ ہاتھوں کا ھے جو ہمارے کپتان کو ناکام بنانے کے لیے رات دن کوشاں ہیں لیکن یہ ان کی بھول ھے اس سے کپتان کا کچھ نہیں بگڑے گا البتہ جانے والوں کی سیاست زیرو ہو جائے گی…
تیسرے جوان نے تو ساری حدیں کراس کرتے ہوئے بیوروکریسی کے لیے وہ روایتی لب و لہجہ اختیار کیا کہ جسے الفاظ کاروپ دینا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں
ھم نے تینوں کے ردعمل کو تحمل سے سنا لیکن کسی اسی طرح کے جذباتی ردعمل سے بچنے کے لیے انہی اس کا کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا، البتہ اس موقع پر ماضی قریب سے جڑے تین منظر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے، ایک وہ کہ جب اسی طرح دوسری جماعتوں کے افراد جہاز میں بٹھا کر کپتان کے پاس لائے جاتے تھے اور کپتان ان کے گلے میں پارٹی پرچم سے بنا مفلر ان کے گلے میں ڈال کر انہیں گلے سے لگا رہا تھا، دوسرا وہ منظر کے جب اپوزیشن کی بار بار دہائی کے باوجود کپتان صاحب نے کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر قومی معاملات پر مشاورت کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تیسرا وہ منظر کہ جب متعدد سیاسی مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کر کےان کو اور ان کے خاندان کو ذہنی اذیتیں دی جارہی تھیں،
ہم سوچ رہے تھے کہ کیا تب بھی کسی جیالے نے ایسا کہا ہو گا کہ اس طرح کے سینکڑوں فرخ حبیب اگر لوٹے بن کر آئیں تو پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا یا یہ کہ یہ جو راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرکے آرہے ہیں یہ سب بیوروکریسی کا کیا دھرا ھے، انہوں نے ہی ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کیا ہے اور تیسرا وہ منظر کہ جب یہی فرخ حبیب، شہزاد اکبر، شہزاد گل اور فواد چوہدری کپتان کو خوش کرنے کے لیے میڈیا پر بیٹھ کر مخالفین کی ماں بہن ایک کررہے ہوتے تھے،تو کیا تب بھی کسی نے کہا تھا کہ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اس لیے ان کو اپنی سیاست میں گھسیٹنے کا یہ گھٹیا کام نہ کرو….؛
ھم سوچ رہے تھے کہ تب یہ ساری باتیں ان جیالوں کو اچھی کیوں لگتی تھیں اور یہ دوقدم آگے بڑھ کر نعرے کیوں لگاتے تھےاور اب بری کیوں لگتی ہیں.
شاید اس لیے کہ تب وہ آرہے تھے اور اب وہ جارھےہیں…