فرخ حبیب بھی استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے، اس سے پہلے صداقت عباسی اور عثمان ڈار کی جانب سے سیاست اور تحریک انصاف چھوڑنے پر جب میں نے کالم لکھا تھا کہ یہ غیرسیاسی اور کمزور لوگ تھے، تو کچھ دوستوں نے اپنے فیڈ بیک میں کہا کہ اتنے ظلم کے بعد ان کے پاس اور کیا راستہ تھا؟
لہذا سیاست چھوڑنے کو ان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ حالات کے مارے لوگ ہیں۔ان کی مجبوریوں کو سمجھیں۔لیکن میں اس دلیل سے اب بھی متفق نہیں ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کمزور لوگوں کا کھیل نہیں۔ سیاستدان کا پتہ ہی برے وقت میں چلتا ہے کہ وہ کتنا کمیٹڈ سیاستدان ہے۔ اچھے وقت میں تو سب ہی رہنما نظر آتے ہیں۔ لیکن برے وقت میں ثابت قدم رہنے والے ہی اصل سیاستدان اور سیاسی ورکرز ہوتے ہیں۔
چند دن کی نامعلوم حراست نے سب کا پتا پانی کردیا ہے، ویسے تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس پر تشدد ہوا ہے۔ لیکن اگر ہوا بھی ہے تو بطور سیاسی لیڈر اور سیاسی ورکرز اسے برداشت کرنا چاہیے۔ یوں سیاسی طور پر سرنڈر کرنا سیاست میںکوئی اچھی مثال نہیں ہے،یہ سیاستدان کی شان نہیں ہے۔
پرویز مشرف کے دور میں رانا ثنا اللہ کو نامعلوم لوگوں نے اٹھا لیا تھا، جب رہا کیا تو ان کے سر پر بال نہیں تھے، آنکھوں کے بھنویں بھی کاٹ دی گئی تھیں۔
جسم پر تشدد کے واضع نشانات تھے۔ لیکن رانا ثنا اللہ نے رہائی کے بعد وہی موقف دہرایا تھا جس کی پاداش میں ان پرتشدد ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کے دور میں انھیں سات ماہ تک سزائے موت کے قیدیوں کے لیے مخصوص کوٹھری میں رکھا گیا، پندرہ کلو گرام ہیروئین کیس میں سزائے موت کا ڈراوا بھی دیا گیا۔ لیکن انھوں نے پھانسی کے خوف سے سیاست چھوڑی نہ سیاسی موقف تبدیل کیا۔
ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سرعام چوکوں میں کو ڑے مارے جاتے تھے۔ لاہور کے قلعہ میں تشدد کیا جاتا تھا۔ کئی کئی سال غائب رکھا جاتا تھا۔ ملٹری کورٹ سے لمبی لمبی سزائیں دی جاتی تھیں۔
لیکن وہ سب اس ظلم کے خلاف بھی ثابت قدم رہے۔ پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پرویز رشید پر بہت ظلم کیا، ان پر بدترین جسمانی تشدد کیا گیا۔ لیکن انھوں نے سیاست چھوڑی نہ سیاسی موقف تبدیل کیا۔ میں سیکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں دے سکتا ہوں۔
ان کی سیاسی ثابت قدمی کی آج بھی پاکستان کی سیاست میں مثال دی جاتی ہے۔ اس لیے قید، تشدد یا دباؤ میں سیاسی موقف تبدیل کرنا جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ان کی سیاسی کمٹمنٹ کی کمزوری ہی سمجھی جائے گی۔
پی ٹی آئی اوراس کے سیاسی لیڈرز اور ورکرز سیاست میں مقصدیت کے داعی نہیں رہے۔ انھوں نے ہمیشہ پر تشدد سیاست کی وکالت کی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں گالم گلوچ کے کلچر کو پی ٹی آئی کے لیڈر اور ورکرز نے عروج تک پہنچا دیا، سیاسی مخالفین کا تمسخر اڑانا ان کی سیاست کا ایک حصہ تھا۔کل تک سیاست کے سلطان راہی نظر آنے والے آج سیاسی ایکسٹرا بن گئے ہیں۔
فرخ حبیب بھی استحکام پاکستان پارٹی جوائن کرنے والوں کی سیاست ختم ہونے کا اعلان کرتے تھے لیکن آج خود اسی آشیانے پر آ بیٹھے ہیں۔استحکام پاکستان پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ نے انھیں خوش آمدید نہیں کہا، جہانگیر ترین اور علیم خان ساتھ نہیں بیٹھے، عون چوہدری ساتھ بیٹھے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ انھیں ٹاپ لیڈر کا درجہ نہیں ملا ہے۔
کیااستحکام پاکستان پارٹی کمزور سیاستدانوں کی شمولیت سے الیکشن جیت سکتی ہے؟ سیاسی جماعتوں کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو مشکل وقت میں ثابت قدم رہ سکیں، استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت بھی انھیں سیاست میں زندہ نہیں کرسکتی ۔ استحکام پاکستان کا ووٹر بھی انھیں قبول نہیں کرے گا، یہی حقیقت ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس