انسانی حقوق کے علمبردار، نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کے چیمپئن امریکا، برطانیہ اور یورپ کا گھناؤنا چہرہ ایک بار پھربے نقاب ہو چکا۔ کس بے شرمی، بے حسی اورسنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے بڑی تعداد میں قتل عام اور غزہ کی تباہی میں ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔
امریکی صدر اور سیکرٹری خارجہ نے تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے اس قتل عام اور غزہ کی تباہ و بربادی کیلئے اسلحہ سمیت غیر مشروط حمایت کی یقین دہانی کروائی ہے۔
تقریبا دو ہزار کے قریب فلسطینیوں کو جن میں بڑی تعداد میں بچے اور عورتیں شامل ہیں، شہید کیا جا چکا، ہزاروں زخمی ہو چکے، غزہ کے کئی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، ایک طرف اسرائیل کی طرف سے غزہ کو بجلی پانی سمیت ہر قسم کی سپلائی روک دی گئی اور کسی بھی قسم کی بیرونی امداد خواہ وہ خوراک کی صورت میں ہو یا دوائیاں کچھ بھی غزہ میں پہنچنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، دوسری طرف اپنی جان بچانے کیلئے غزہ سے نکلنے والوں پر بھی اسرائیل کی طرف سے بمباری کی جا رہی ہے۔
امریکا و یورپ کی حمایت سے انسانی تاریخ میں مظالم کی ایک نئی داستان لکھی جا رہی ہے جس میں مظلوم مسلمان ہی ہیں۔
ایک خبر کے مطابق ایک ہفتہ میں جتنا گولہ بارود اسرائیل نے غزہ پر برسایا اتنا امریکا نے ایک سال میں افغانستان پر برسایا تھا۔ ان حملوں میں ہر قسم کے جدید اسلحہ کے ساتھ ساتھ فاسفورس بموں کا بھی استعمال کیا گیا۔
اس ظلم اور جبر کے خلاف مغرب کے اندر سے بھی آوازیں آ رہی ہیں، برطانیہ، یورپ اور امریکا میں بھی مظاہرہ ہو رہے ہیں کہ جو کچھ اسرائیل امریکا، برطانیہ اور یورپ کی حکومتوں کی حمایت سے کر رہا ہے اس کا شمارجنگی جرائم میں ہوتا ہے، وہ اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی ہے، یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے، یہ ظلم ہے، جبر ہے۔
لیکن یہودی لابی کا مغربی ممالک کی حکومتوں اور وہاں کے میڈیا پر اتنا اثر ہے کہ ہوتا وہی ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ اس لئے جو جبر، جو ظلم اسرائیل کرے، اس کی حمایت امریکا، برطانیہ اور یورپ کرتے ہیں اور جس ظلم و جبر کا شکار مسلمان ہوں اس پر نہ ظالم کی پکڑ ہوتی ہے نہ مظلوموں کی دادرسی۔
روس اگر یوکرین پر بم برسائے تو امریکا، برطانیہ یورپ کو سنائی دیں لیکن اسرائیل کی غزہ پر کتنی ہی شدید بمباری ہو اور اس کا شکار چاہے جتنی بڑی تعداد میں معصوم بچے تک بھی ہوں ان ممالک کا نقطہ نظر ہی بدل جاتا ہے۔
نام نہاد تہذیب یافتہ دنیا کا یہ وہ مکروہ چہرہ ہے جس کے بارے میں ہمیں اسلام بتاتا ہے کہ یہ تمہارے دوست کبھی نہیں ہو سکتے، ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بغض ہے، ان کی زبانوں سے بہت زیادہ ان کے دل کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے جس کا اظہارہم بار بار گزشتہ چند دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وڈیوز، تصاویر دیکھ کر سخت سے سخت دل بھی نرم پڑ جاتا ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی سنگدلانہ مہم جاری ہے اور نہ وہ خود اس ظلم سے باز آ رہا ہے نہ ہی امریکا، برطانیہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق شہید فلسطینیوں کی تعداد 2 ہزار 329 ہو چکی جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریبا 10 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جنگ کے دوران کوئی چار لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے جبکہ غزہ کی آبادی کو پانی بجلی اور خوراک سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل فلسطینیوں کو امداد اور علاج کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ظالم اپنے مظالم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کا کہنا ہے کہ غزہ کے ہسپتالوں سے اسرائیل کی طرف سے زخمیوں اور زیرعلاج ہزاروں فلسطینیوں کی بے دخلی کا حکم سزائے موت کے مترادف ہے۔
ساری دنیا اس ظلم کو دیکھ رہی ہے لیکن کب کیسے یہ ظلم رکے گا اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، کسی کو اس کا علم نہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ