یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے…افشین شہریار

فلسطین میں عرصہء دراز سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے ۔ظلم کا راج ہے زندگی کی ضروریات کے دروازے انسانوں پر بند ہیں۔روح فرسا ظلم ، انسانی توہین کی خون آلود تاریخ رقم ہو رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کشمیر ،عراق ، شام اور افغانستان انسانیت سوز ظلم کا نشانہ بنتے رہے ہیں ۔بستیاں اجڑ گٸیں۔ بے گناہ لوگ لقمہء اجل بن گٸے۔پاکستان بھی دھماکوں کی زد میں رہا ۔

اس سے زیادہ تکلیف دہ زندگی ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے جسمانی اعضاء جیتے جی چھن جاتے ہیں اور باقی زندگی سسکتے ہوٸے ،معذوری میں گزرتی ہے۔

ظلم پر ظلم ہوتا رہا اور انسانیت تماشا دیکھتی رہی۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں جب ہر بات آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

اسلامی ممالک کے سربراہان خاموش ہیں۔فلسطین آگ میں جل رہا ہے۔مظلوم کس کو پکاریں ،کس کو صدا دیں۔

دنیا بے حسوں کی بستی بن گٸی ہے۔جن کو کچھ احساس ہے وہ صرف دعا کرتے ہیں اور پھر اپنی روزمرہ کی
مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ،کیا دعاٸیں قبول نہیں ہو رہیں؟

واقعی دعاٸیں قبول نہیں ہو رہیں۔اجتماعیت کی موت واقع ہو چکی ہے۔مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر چکے ہیں ۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہ ہی باتیں ہیں

اس تفرقہ بازی کے دور میں کون کس کا مددگار ہوگا جبکہ مسلمان کو ایک دوسرے کا ساتھی ہونا تھا ۔

عمل کرنا لازم ہے ۔دنیا عمل کی جگہ ہے ۔جیسا عمل ہو گا ویسا نتیجہ ملے گا۔

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں ،بنا کے تقدیر کا بہانہ

غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اب ابوبکرؓ وعلیؓ اور عمرؓ و عثمانؓ نہیں آٸیں گے بلکہ ہمیں اپنے اپنے داٸرے میں ان کا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ہمیں ہی خدیجہؓ و عاٸشہؓ بننا ہوگا۔اپنے اپنے اعمال کو درست کرنا ہوگا۔یقین پیدا کرنا ہوگا۔عمل خالص کرنے ہوں گے ۔یہ سمجھنا ہو گا کہ
ان اللہ بصیر بالعباد

ہمیں اس فکر سے مبرا ہونا ہوگا کہ دوسرے کی جنت دوزخ کے حساب میں لگے رہیں بلکہ اپنی جنت کی تعمیر خود کرنی ہو گی۔ اگر عہد کرلیا جاٸے تو کوٸی علاقہ فلسطین و کشمیر نہیں بنے گا۔ یہ ہی عمل ہمیں مضبوط اور متحد کرے گا۔

پیش کر غافل ،عمل کوٸی اگر دفتر میں ہے