انسانیت پہ سیاست غالب کیوں … تحریر : کشور ناہید


ہفتے کی صبح بڑی خوش تھی ہالینڈ کے رائٹر جان فوئے کو ادب کا نوبل انعام ملا تھا، سارا دن نیٹ پہ اسکی کتابیں تلاش کرتے گزرا۔(کسی کے پاس ہوں تو مجھے عطا کریں) میں شام کو طاہرہ عبداللہ کی میل کھول کے خوش ہوئی کہ امن کا نوبل انعام51سالہ نرگس محمدی کو دیا گیا وہ ایران کی جیل میں31سال کی قید اور154کوڑوں کی سزا کاٹ رہی ہے۔ اسکا شوہر اور بیٹا پیرس میں ہیں، نرگس نے جیل میں اور ان دونوں نے پیرس میں اس خوشی کومنایا، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایرانی حکومت دسمبر میں اس انعام کیلینے کیلئے نرگس کو رہا کردے کہ اکثر فلم ڈائریکٹرز ، ٹی وی کارکنوں کو بھی گاہے گاہے سزائیں ملتی رہی ہیں۔ ابھی میں اس خوشی اور غمی کی منزل میں تھی کہ الجزیرہ نے حماس کے بارے میں بتایا کہ اسکے جنگجوؤں نے اسرائیلی چودہ بستیوں پر ہوائی، زمینی اور بحری حملہ کردیا۔ سامنے ٹی وی پر تصویریں تھی اسمعیل حانیہ اپنے دیگر رہنماؤں کے ساتھ اس موثر حملے پہ شکرانے کے نفل ادا کررہے تھے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے القدس کو بچانے کی دعا کی ساتھ ہی میرے دماغ میں ابال اٹھا۔ مائیگرین ہونے لگا ۔ یوں چھٹی کا دن اذیت میں گزرا کبھی ٹی وی دیکھتی اور کبھی فلسطین کیلئے دعا کرتی۔

فلسطینیوں پہ2005سے چار دفعہ اسرائیلیوں کے حملوں کو برداشت کیا تھا۔ غصہ مجھے یہ آیا کہ سلامتی کو نسل ، اقوام متحدہ اور سارے نام کے بڑے بڑے عالمی ادارے جس ملک میں بھی ہزاروں لوگ بے گھر ہوں اور مارے جائیں ۔یہ ادارے بس اجلاس کرتے اور انکے سربراہ ٹی وی پر آکر معاملہ حل کرنے کاکہتے ہیں۔ بس باہمی صلح کرنے کا کہہ کر بعد میں ضرورت ہوتو بڑے ملکوں کا اجلاس بلاکر اپنی جان چھڑاتے ہیں ۔ آپ کے سامنے ہے کشمیر کا مسئلہ، روہنگیا کے بے زمین باشندے ، یوکرین کی اور افریقی ممالک کی باہمی لڑائیاں اس پر طرہ یہ کہ امریکہ کا بوڑھا صدر فورا امریکی امداد دینے کا اعلان کرتا ہے۔ مسلمانوں کے صدر بننے والے عرب سربراہ مغربی وفود کی میزبانی کررہے ہیں، خاموش ہیں۔ تحمل سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ 1948سے اب تک کتنے سربراہ خاص کر یاسر عرفات مجبورا اوسلو معاہدے کرتے رہے۔وہی عرب سربراہ جب اسرائیلی رہنماؤں سے ملتے ہیں مجال ہے کہ فلسطینی مملکت کو تسلیم کرنے کا نکتہ بھی اٹھائیں۔ یہ ماجرا کیا ہے، کلنٹن کے زمانے سے اب تک جب چاہے امریکہ اسرائیل کی مدد کرنے کو، یورپی یونین بھی ہامی بھرتی ہے۔ فلسطینی لبنان، مصر کے بارڈر اور اردن تک کہیں گھروں میں مگر زیادہ تر خیمہ بستی کی شکل میں60سال سے اس ا مید پررہ رہے ہیںکہ عالمی طاقتیں کسی دن تو ہوش میں آئینگی ۔یہ سوال پردے میں رکھ کر سارے مغربی ممالک اسرائیل کو بطور ملک تسلیم کرنے کے ڈورے ڈال رہے ہیں۔ حماس کے ساتھ جنگجو حزب اللہ والے بھی اس حملے میں مسجد اقصی کو بچانے کیلئے، بھرپور حملے کررہے ہیں۔ کچھ دن تک دونوں جانب کے معصوم لوگ مارے جائینگے پھراقوام متحدہ، بظاہر صلح کراکے دونوں جانب کے بے گھر لوگوں کی آباد کاری کا منصوبہ ساری دنیا کے سامنے رکھے گی۔ یہ عارضی صلح تین نسلوں نے برداشت کی ہے۔یہی عذاب کشمیریوں کی نسلوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے خاص کر2014سے موجودہ بھارتی حکومت تک کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دے موجودہ حکومت کی کارکردگی کو ان دس برسوں میں دیکھا جائے تو دہلی کے ہنگامے، کسانوں کا کئی مہینوں تک احتجاج اور پھر کوووڈ کے معاملات کو جس بری طرح غیر انسانی طریقے پرلیا گیا۔ اسکا بھی نوٹس عالمی سلامتی کے اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔

انڈیا میں گزشتہ ہفتے سے46 صحافیوں کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ 16صحافیوں کو داخل زندان کردیاگیا ۔گزشتہ 5 دن سے ایجنسیاں وہی کام کررہی ہیں جو پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ روارکھا گیا اور جاری بھی ہے۔ میں اگر عمران ریاض کا نام لوں توا س نالائق کی شامت تو وہ بھگت چکا۔ اب دوسرے بولنے والوں کے دن بھی گنے گئے ہیں۔ البتہ عدالتیں ذرا جاگنے لگی ہیں۔ اور الیکشن سے پہلے ہی بڑ بولے سیاست دان، مخاصمت کی جگہ مفاہمت کی بات کرنے لگے ہیں۔

دنیا میں اقتصادی دہشت گردی کی جانب ماہرین معیشت شور مچا رہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل نے غزہ میں بجلی، پانی اور خوراک کی سپلائی بند کردی ہے۔ روس کے تیل اور گیس کو یورپی ممالک میں استحصال کی شکل دی جارہی ہے۔ افغانستان کے مذہبی لارڈز پاکستان کی اشیا اسمگل کروارہے ہیں مگر جو سردیوں کی سوغات وہاں سے آتی ہے۔ اسکی تجارت کو مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں۔ اقتصادی دہشت گردی فی الوقت آرڈر آف دی ڈے ہے۔

پاکستان میں جو فصل بھی تیار ہو۔ اسکی قیمت مقرر کرنے کی کسانوں کو اجازت نہیں، سرکار خود قیمت مقرر کرتی ہے، کسان خود آکر بازار میں فروخت نہیں کرسکتے۔ یہ فصل کی تیاری کے بعد کا پہلا مرحلہ ہے اسی دوران خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ جو فصل یعنی گندم یا چاول تازہ تیار ہوئی ہے۔ انہی دنوں میں گوداموں میں رکھی ہزاروں من فصل کے بارے میں کہہ دیا جاتا ہیکہ وہ نمی یا بارش کے پانی سے خراب ہوگئی۔ اسکی نیلامی کردی جاتی ہے۔ بعد ازاں نئی فصل کی قیمت من مانے انداز میں لگادی جاتی ہے۔ میرے جاننے والے نوجوان اپنی زمینوں پر فصل کی نگرانی خود کرتے ہیں۔ ڈیزل کی قیمتوں اور کھاد کی مہنگائی ان سب کو ملاکر فصل کی قیمت مقرر کرنے کا انہیں اختیار نہیں ہے اب جو کارپوریٹ فارمنگ کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے۔ اس میں کسانوں خاص کر چھوٹے کاشتکاروں کو کس کوڑی کا فائدہ ہوگا۔ کیا کہا گھی کی قیمتیں نیچے آ گئی ہیں۔ بازار سے منہ نیچا کیے واپس جس دن سے کوثر عبداللہ ملک وزیر بن کر آیا ہے بار بار یاد کراتی ہوں کہ اپنے باپ عبداللہ ملک کی روح کو اطمینان دینے کیلئے غریب کاشت کاروں کی دیسی گڑ، شکر بنانے والوں، باجرہ اور مکئی کو عام آدمی کی خوراک کا حصہ بنانے کیلئے میڈیا کو استعمال کریں۔ مکئی کی روٹی اور گھاس تو فیشن بن گیا ہے۔ باجرے کی روٹی، ٹکیاں، دلیہ اور صحت بخش غذائیں بنواؤ پاکستان میں اتنا دودھ ہے آخر پنیر کیوں نہیں۔ ہم یعنی عام لوگ غزہ کے مجبور لوگوں کیلئے خوراک بھجو ا سکتے ہیں۔ رضاکار تنظیموں سے دنیا بھر میں اپیل کی جائے۔ فلسطینیوں کی سخت جانی مبارک۔

بشکریہ روزنامہ جنگ