بے نامی شب عبور کے پڑاؤ میں الاؤ … تحریر : وجاہت مسعود


پون صدی بیت گئی۔ طبع آشفتہ نے انداز شکیبائی نہیں سیکھے۔ پرانی بستیوں سے نکل کر نئے نگر کے لیے عازم سفر ہوئے تو تیز ہواؤ ں میں ایک خیال کا دیا جلتی بجھتی لو دے رہا تھا کہ تاحد نظر پاپیادہ، بیل گاڑیوں اور رکتی کٹتی ریل گاڑیوں پر آگے بڑھتا یہ قافلہ جہاں لنگر ڈالے گا وہاں جینے اور مرنے کا کوئی دستور تو ہو گا۔ اس خواب کی تعبیر میں 54 اور 71 والے دستور تو سانس ہی نہیں لے پائے۔ 56 کے دستور کو دفتر بے معنی قرار دے کر کھڑکی سے باہر اچھال دیا گیا۔ ایک دستور ایسا بھی نصیب ہوا جو نکلا تو منظور قادر کی کلک رواں سے تھا لیکن سر عبدالقادر کے صاحبزادے کی قانونی ژرف نگاہی اور انگریزی زبان میں لاطینی ٹکڑے ٹانکنے کی مہارت کے پس پشت ایوب خان اور ان کے حواریوں کی شگفتہ بیانی کارفرما تھی۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ خسروان وقت رعایا کا زن بچہ کولہو کرنے کا حکم بھی دیں تو مفتوحہ آبادیوں میں صاحب اقتدار کا دشنام بھی سرکاری پرچہ نویسوں کی زبان میں بادشاہ سلامت کی جود و سخا کا عنوان پاتا ہے۔ اسے محض داستان سرائی نہ سمجھئے۔ منظور قادر اور ملک غلام جیلانی قدیمی دوست تھے۔ 62 کے آئین کے بارے میں ان کا ایک مکالمہ درویش کے حافظے کا حصہ ہے جسے دہرانا قومی مفاد کے منافی ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک دستور ہوتا ہے اور ایک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہوتا ہے۔ دستور کا مآل ہم نے بارہا دیکھا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا عدالت عظمی کے حالیہ فیصلے سے تعلق نہیں۔ اس مملکت میں پریکٹس دراصل وہ ڈنڈا ہے جسے حالت اشتعال میں بریگیڈیئر امتیاز یا چوہدری محمد سردار کے پیٹ میں چبھویا جاتا ہے۔ پروسیجر کی مشق ہم 1945 سے دیکھ رہے ہیں۔ لمحہ موجود کے کامیاب پریکٹیشنر فیصل واؤڈا، فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان ہیں۔ انتظار حسین کا ناول بستی اس جملے پر ختم ہوتا ہے۔ یہ بشارت کا وقت ہے۔ 1980 میں شائع ہونے والے اس ناول پر 44 برس گزر گئے۔ اب بشارت کا وقت گزر چکا۔ ہم ایک بے نامی شب عبور کے جنگل سے گزر رہے ہیں۔ اندھیری رات میں گری پڑی لکڑیوں سے الاؤ سلگائے پچیس کروڑ مسافر باہم سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ جمہوریت کی چاندنی پر بے خبری کی دھند چھا جائے تو اجتماعی مکالمہ سرگوشی میں بدل جاتا ہے۔ جو ہو چکا، اس کا ملال لاحاصل ہے اور آئندہ کی خبر محض قیاس ہے اور قیاس بھی ایسا کہ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔ کالم خبر نہیں دیتا، خبر کا تجزیہ پیش کرتا ہے اور یہ تجزیہ دستور اور قانون میں دیے گئے خطوط کے مطابق ہوتا ہے۔ سازش، جرم اور حادثے کی بعد از وقوعہ تحقیق تو ہو سکتی ہے، پیش بینی ممکن نہیں۔ تو آج سیاست کا دفتر لپیٹ کر شعر کی دنیا میں چلتے ہیں۔

شعر کی دنیا میں کمال ہنر اور واردات درو ں کا دو آتشہ جادو اپنی جگہ لیکن قبول عام کی دولت ایک تیسری سمت ہے۔ اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں۔ چار شاعر ہماری روایت میں عجیب گزرے ہیں۔ آغا حشر، محمد علی جوہر، اختر شیرانی اور چراغ حسن حسرت۔ بظاہر روایتی مضامین، رواں دواں بحریں مگر تاثیر ایسی ہے کہ شعری نقد کے آلات کام نہیں دیتے۔ آغا حشر کا شعر دیکھئے۔ گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک / تری رہ گزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی۔ حرم کا لفظ غالب سے اقبال تک سب نے برت رکھا ہے مگر یہاں رہ گزر کی نشست نے شعر میں شرارے بھر دیے۔ محمد علی جوہر کی صحافت اور سیاست نے ان کی شاعری دھندلا کے رکھ دی مگر شعر دیکھئے۔ ہے یہاں نام عشق کا لینا/ اپنے پیچھے بلا لگا لینا۔ بلا کا یہ استعمال خدائے سخن نے بھی کر رکھا ہے۔ جن بلاؤں کو میر سنتے تھے / ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ میر تقی سے کیا تقابل لیکن محمد علی جوہر نے بلا کے سہ حرفی لفظ میں قیامت اٹھا دی ہے۔ اسی روایت میں عشروں بعد محبوب خزاں نے لکھا۔ حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں / ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں۔ سچ کہئے کہ ایسا جھگڑا کہیں اور دیکھا ہے۔ یہ میر حسن کی مثنوی کا جھگڑا نہیں جسے پنڈت کوکا ناتھ کی مدد سے سمجھا جا سکے۔ یہ تو بھیتر کی خنجر زنی اور خارج کی زنجیر زنی کی دو طرفہ یورش میں سر کو پناہ کیے بغیر صف غنیم سے وارفتہ وار گزر نا ہے۔ چراغ حسن حسرت سہل ممتنع کے بادشاہ تھے۔ علم اور شخصی متانت پر نظر کریں تو یقین ہی نہیں آتا کہ طلسم ہوشربا کی لغت کا یہ شناور اس سادگی سے دلوں کے قتلے کرنے پر بھی قدرت رکھتا تھا۔ یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا/ جو ہاتھ جگر پر ہے، وہ دست دعا ہوتا۔ حسرت صاحب زاہد خشک نہیں تھے مگر دنیائے جلب و زر سے ایسی بے اعتنائی اور نہاں خانہ دل میں ایسی روشنی۔ جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے۔ اختر شیرانی کو دیکھئے۔ کل 43 برس کی عمر پائی۔ والد حافظ محمود شیرانی تھے اور صاحبزادے مظہر شیرانی۔ زہد و اتقا کے ان دو سنگی کوہساروں کے بیچ سے اختر شیرانی کا اٹھلاتا، شفاف اور ٹھنڈا چشمہ کیسے پھوٹا؟ روایت کے مطابق حیات مختصر کی ایک آخری غزل میں لکھا۔ آج پینے کا مزہ آیا نہیں / ساقیا، ساغر سنبھال، اختر چلے۔ اس مقطع میں تخلص کا استعمال جس معنویت سے آیا ہے، اردو شعر میں اس کی مثال کم ملتی ہے۔ بہت بعد میں منیر نیازی کی رونمائی ہوئی۔ یہی بحر تھی اور یہی زمین۔ دیر کیا ہے آنے والے موسمو / دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے۔ بندش کے اعتبار سے منیر نیازی کا شعر داخلی اور خارجی معانی میں کہیں پختہ تر ہے لیکن بہائو کی آسودگی میں اختر شیرانی نے رائیگانی کی استھائی پر افسردگی کا جھالا ایزاد کر دیا ہے۔ شب تیرہ و تاریک کے اس عہد عبور میں آپ کا ذوق بہتر رہنما ہے۔ بھلے اختر صاحب کو پڑھئے یا منیر نیازی سے رجوع فرمائیے۔ رخت سفر باندھ لیجئے کیونکہ دن تو بہرحال گزر جاتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ