مظلوم و مغضوب فلسطینیوں کی مزاحمتی اور جہادی تحریک حماس اور غاصب و ظالم صہیونی اسرائیل کے درمیان تازہ ترین تصادم کو شروع ہوئے آج ساتواں دن ہے ۔ تنگ آمد کا نتیجہ ہمیشہ بجنگ آمد کی شکل ہی میں نکلتا ہے۔
پچھلی سات دہائیوں سے صہیونی و غاصب اسرائیلی افواج نے کونسا ایسا ستم اور ظلم ہے جو انھوں نے مظلوم، مقہور اور بے بس فلسطینیوں پر آزمایا نہ ہو۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب اسرائیلی فوجوں اور اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں کسی مزاحمتی فلسطینی کا خون نہیں بہایا جاتا ۔ پچھلے سات عشروں کے دوران اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین کئی خونریز معرکے ہو چکے ہیں۔
ظاہر ہے ہر بار زیادہ نقصان نہتے اور کم وسیلہ فلسطینیوں ہی کا ہوتا ہے ۔شاباش ہے فلسطینیوں کو کہ انھوں نے لاکھوں جانیں دے کر بھی ہمت ہاری ہے نہ غاصب یہودیوں کے سامنے سرنڈر ہی کیا ۔
اب جب کہ اسرائیلی و صہیونی افواج کے ہاتھوں ہر روز مظلوم و بے کس فلسطینیوں کا خون بیدردی سے بہایا جارہا تھا، فلسطین کی جانباز تحریک حماس نے تنگ آ کر کہ روز مرنے سے اچھا ہے ایک دن ہی جانیں اللہ کے لیے نچھاور کر دی جائیں ، 7اکتوبر 2023بروز ہفتہ جنوبی اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔
یہ حملہ فضا، زمین اور سمندر کے راستے سے بیک وقت کیا گیا۔ اپنی طاقت، ٹیکنالوجی، جدید اسلحہ اور ماڈرن انٹیلی جنس کے زعم میں مبتلا اسرائیل کے لیے یہ اچانک حملہ کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران 1100 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں اور فلسطین کے900سے زائد افراد شہادتوں سے سرفراز ہوئے ہیں ۔
حماس والے جانتے تھے کہ اسرائیل پر ان کے حملے کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں لیکن متعدد خطرات کے باوصف وہ جان پر کھیل گئے ۔
اب اسرائیل نہایت وحشت و بربریت سے اپنے جانی نقصان، ندامت اور ہزیمت کا بدلہ غزہ کی تنگ سی پٹی میں مقیم فلسطینیوں سے یوں لے رہا ہے کہ ان کا پانی، خوراک ، بجلی اور گیس بند کی جا چکی ہے۔ اِس ہلاکت خیز ناکہ بندی کے باوجود امریکا و مغربی ممالک انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں، جب کہ عالمِ اسلام کے اکثر حکمران اسرائیلی مظالم پر مجموعی طور پر خاموش ہیں۔نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو بھی مہر بہ لب ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی احتجاج میں باہر نہیں نکلی ہے ۔ پاکستان کی دیگر مذہبی تنظیمیں اور ان کے رہنما بھی ابھی تک حماس کے حق میں کھل کر نہیں بول رہے۔ صرف جماعتِ اسلامی واحد جماعت ہے جو کھل کر حماس کی طرفداری میں کھڑی ہے۔امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان ، جناب سراج الحق، نے 15اکتوبر2023 کو حماس کی حمایت میں الاقصی فلسطین مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔اِسی سلسلے میں انھوں نے کراچی میں مفتی تقی عثمانی صاحب سے بھی ملاقات کی ہے۔
جماعتِ اسلامی کی این جی او الخدمت فاونڈیشن نے فلسطینیوں کی اعانت کے لیے10کروڑ روپے کا ریلیف فنڈ بھی قائم کر دیا ہے۔امیرِ جماعتِ اسلامی ہند، سید سعادت اللہ حسینی، نے بھی، تمامتر خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بھارتی حکومت سے فلسطینیوں کی حمایت کا مطالبہ کیا ہے۔ ( واضح رہے کہ نریندر مودی نے حماس حملوں کی مذمت اور اسرائیل کی حمایت کی ہے )۔
صہیونی و غاصب اسرائیل ہر روز پھیلتا ایک زہر ہے ۔ ایسے میں اگر ہم مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے ارشاداتِ گرامی پر مبنی معرکہ خیز کتاب مجالسِ سید مودودی کا مطالعہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے برسوں قبل اسرائیلی کے پھیلتے زہر سے ہم سب کو آگاہ کر دیا تھا۔مثال کے طور پر کتاب مذکور کے صفحہ 89پر مولانا مودودی کے یہ الفاظ :افریقہ میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں اس طرف مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ توجہ دیں ۔
افریقہ کے تقریبا چار ہزار طلبہ اس وقت اسرائیلی ریاست کے اخراجات اور وظیفوں پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح اسرائیل بڑی تیزی کے ساتھ افریقہ میں اپنے اثرات میں اضافہ کررہا ہے۔ مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک مسلم افریقی طلبہ کو وظائف پر بلائے اور انھیں تعلیم و تربیت دی جائے ۔ ایسے لوگ ہی واپس جا کر اپنے ملکوں میں عیسائی اقلیت سے بھی ٹکر لے سکتے ہیں اور یہودی اثرات کو بھی ختم کر سکتے ہیں ۔
مولانا مرحوم نے اپنی عصری مجالس میں ایک بار یہ بات بھی تاسف کے ساتھ کہی: اسرائیلی یہودیوں نے عبرانی زبان کو، جو دنیا میں کہیں نہیں بولی جاتی تھی اور بالکل ایک مردہ زبان تھی، دوبارہ زندہ کیا۔ اب اس زبان میں بہت سے اسرائیلی اخبارات اور رسالے شایع ہوتے ہیں۔
یہ ان کی قومی زبان ہے۔ ہم نہ جانے کیوں اردو کو اختیار کرتے ہوئے شرماتے ہیں جب کہ اردو ، عبرانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔سید مودودی نے یہ مشورہ آج سے تقریبا 50سال قبل دیا تھا۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود ہم نے اردو کو خاص اہمیت نہیں دی۔ البتہ کئی پاکستانی حکومتوں نے اس بارے کئی خوش کن وعدے کئی بار کیے ہیں ۔
ایک مجلس میں مولانا سید مودودی نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :عربوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں کثرت سے اسرائیل کے جاسوس موجود ہیں۔ یہ جاسوس یہودی ہوتے ہوئے بھی عرب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ یہ عربی مادری زبان کی طرح بولتے ہیں ۔
یہ لوگ دو تین پشتوں سے فلسطین کے علاقے میں اور عربوں کے درمیان رہائش پذیر رہے ہیں ۔ کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ اسرائیل کے جاسوس ہو سکتے ہیں ، مگر گزشتہ جنگ( جون1967) میں اس کا پورا ثبوت مل گیا ۔ اس کے مقابلے میں عربوں کا جاسوسی کا نظام بہت کمزور ہے ۔(صفحہ206) ۔
جون1967کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر کے ساتھ شام اور اردن بھی اسرائیل سے بری طرح شکست کھا گئے تھے۔
عالمِ اسلام میں عمومی طور پر اور عالمِ عرب میں خصوصی طور پر یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ مصر کو اسرائیل سے کیسے شکست ہو گئی حالانکہ جنگ سے پہلے مصر بڑے دھڑلے سے اسرائیل کے خلاف اپنی بھرپور جنگی تیاریوں کا پروپیگنڈہ کرتا رہا تھا۔
مصر کے صدر جمال ناصر کے قائم کردہ مصری ریڈیو صوت العرب نے بھی اس سلسلے میں بہت شور مچا رکھا تھا لیکن میدانِ جنگ میں مصر، اسرائیل سے پِٹ گیا۔ مصری شکست کی وجہ کیا بنی؟ مولانا سید مودودی نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کے خلاف مصری صدر کے بلند آہنگ پروپیگنڈے ہی نے مصر کو مروایا۔ مصری پروپیگنڈے کے جواب میں اسرائیل نے دنیا بھر میں واویلا مچایا کہ دیکھیے مصر ایسا بڑا ملک ، اسرائیل ایسے چھوٹے سے ملک کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔
اس واویلے سے متاثر ہو کر امریکا سمیت مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کی خوب مالی اور عسکری مدد کی اور یوں مصر میدانِ جنگ میں بھی ہار گیا اور عالمی سفارتی میدان میں بھی۔ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے کاش، عالمِ اسلام کے حکمران مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی تجاویز پر عمل کر سکتے ۔سچی بات یہ ہے کہ آج اسرائیلی دہشت گردیوں کے سامنے سارا عالمِ اسلام بے بس ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس