اکبر نام لیتا ہے، خدا کا‘‘ : تحریر حفیظ اللہ نیازی’’


21 ؍اکتوبر کو میاں محمد نواز شریف وطن قدم رنجا فرمانے کو، انگلستان چھوڑ چُکے، سفر کا آغاز ہو چُکا ۔ کم و بیش ایک ماہ قبل ارادہِ سفر باندھا تو جوشِ خطابت یا وفورِ جذبات میں’’چند قومی مجرموں ‘‘ کا نام لیکر مطالبہ کر ڈالاکہ’’اُنکے خلاف مقدمات چلانے ہونگے‘‘۔ بس نام لینے کی دیر ، مملکت کے طاقتور حلقوں میں بھونچال آگیا۔ ن لیگی رہنماؤں میں کھلبلی مچ گئی۔ تب سے آج تک رہنماؤں کی طرف سے دو درجن وضاحتی بیان آ چُکے ہیں ۔تازہ بہ تازہ بیان ، سیاسی فہم و فراست سے عاری ہمارے دوست اسحاق ڈار کا اعلان ، ’’معیشت کی بحالی نواز شریف کا بہترین انتقام ہوگا ‘‘۔ نہیں معلوم کہ’’اگر‘‘الیکشن ہو بھی گیا ’’اگر‘‘ نواز شریف اقتدار میں آ بھی گئے اور’’اگر‘‘معیشت بحال بھی ہو گئی تو بدلہ کس کی مد میں چُکتا ہوگا۔ معیشت کی بحالی پر جنرل باجوہ یا جنرل فیض یا ثاقب نثار یا آصف کھوسہ یا عمران خان، کیا سب سے حساب بیباک ہو پائے گا؟

موجودہ حالات اورمعروضی حقائق میں معیشت کی بحالی کا عزم، معاشی بحران بارے ڈار صاحب کی کم علمی یاغیر سنجیدگی پر حیرت زدہ ہوں ۔ سیاسی عدم استحکام ہی تو موجودہ معاشی بحران کی وجہ بنا ہے ۔ 2014ء سے’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ ، جیسے ڈھکوسلے نعرہ پراستوارغیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں نے مملکت کو ایک عرصہ سے متزلزل کر رکھا ۔ یکے بعد دیگر ذمہ داری سنبھالنے والوں نے بھی کسی بُخل کا مظاہرہ نہ کیا اسکو کمال فن بنایا ۔ آج مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں گردن تک دھنس چُکی۔

خاطر جمع رکھیں جب تک اپریل 2014ءسے اپریل 2022ءتک مملکت کو اس حال تک پہنچانے والوں کاتعین نہیں ہو گا ۔ جب تک ’’ طاقتور ‘‘آئین اور قانون کے زیرِ دست نہیں ہونگے، دھجیاں اُڑانے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، مملکت کا سیاسی مستقبل مخدوش ہی رہنا ہے ۔ میرا عقیدہ ہے کہ خواجہ ناظم الدین کی معزولی پر یا1956 ءکے آئین کی منسوخی کا سدِ باب ہو جاتا تو 1971 ءکا سانحہ اور ہتک آمیز شکست نصیب نہ بنتی۔ مملکت کی بد قسمتی کہ طاقت کے زور پر سیاست ہتھیانے کا کھیل، وطنی شکست و ریخت کئی مراحل کے بعد زخم خوردہ سیاسی استحکام کا سفر جب جنرل راحیل اور جنرل باجوہ تک پہنچا تودونوں نے اُس کو مزید چار چاند لگائے ۔ جنرل راحیل اور جنرل باجوہ نے اپنے عہدوں کو دوام بخشنے کی خاطر جو’’ شر‘‘تخلیق کیا، آج عفریت بن کر سامنے ہے ۔ دونوں کا مقصدایک ہی کہ تاحیات آرمی چیف رہنا ہے ۔ جنرل باجوہ کا اضافی بوجھ کہ اپنے ادارے پر بھی رحم نہ آیا۔ اپنے عزائم کو ادارے کیخلاف استعمال کر ڈالا ۔ پہلا موقع کہ ادارے کی وجہ شہرت ’’اتحاد اور تنظیم ‘‘بذریعہ اپنے سربراہ تختہِ مشق بنی رہی۔ امریکہ کے مضبوط صدر ہیری ٹرومین ( 1945-53)نے اپنے دفتر میں دیوا رپر کندہ کرایا ( THE BUCK STOPS HERE ) یعنی کہ’’ سب کچھ میں ہی میں ہوں‘‘۔آج امریکہ کے سیاسی استحکام کا راز اِسی میں پنہاں ہے ۔ ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔ ماضی کریدیں تو 70 سال سے مملکت میں سانپ سیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ پہلا المیہ! طاقت کا سر چشمہ کبھی منتخب حکومت (ما سوا ئےلیاقت علی خان ) نہ بن پائی ۔ بگاڑ کی ساری ذمہ داری ہمیشہ سیاسی حکومت پر جبکہ اختیارات و احکامات ہمیشہ طاقت کے زیرِ اثر رہے ۔ دوسرا المیہ! ہر 8/10سال بعد مملکت زیرو پوائنٹ سے اپنے سیاسی استحکام کی بازیابی کے نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ اس لحاظ سے 70سال کے مختصر سفر میں ہم انواع واقسام کے نظام آزما چُکے۔ تیسرا المیہ ! خواجہ ناظم الدین کی معزولی سے لیکر نگران وزیراعظم کاکڑ تک ، لمبی فہرست میں ایک وزیراعظم بھی نہیں جس کو اقتدار میں لانےکیلئے اسٹیبلشمنٹ موثر نہ رہی ہو یا کسی کو ضرورت پڑنے پر گھر بھیجنے میں کبھی کنجوسی نہ دکھائی ہو؟ ایسی اُکھاڑ پچھاڑ میں مملکت کا باجا بجتا رہا ۔ پردہِ سیمیں کے پیچھے کاریگر فراخدلی سے اپنے آپ کو مسیحا، مُصلح اور مجدد گردانتے رہے ۔ 6سال میں جنرل باجوہ اور عمران خان دلجمعی سے نئی تعیناتی سے پہلے حالات کو جہاں دھکیل گئے ہیں، اُس کا منطقی انجام آج کی صورتحال ہی تھی۔ دونوں موجودہ آرمی چیف کیلئے کانٹے بو گئے۔

دو دن پہلے اسلام آباد میں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کیساتھ ایک طویل نشست ہوئی ۔ ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نامی گرامی افراد شریک ہوئے۔ یوں تو میٹنگ آف دی ریکارڈ رکھنے کی فرمائش تھی، بہت کچھ سامنے آ چُکا ہے۔ وزیراعظم کے جوابات تو میری امانت، البتہ میرا سوال میری ملکیت، یہاں درج کیے دیتا ہوں ۔’’ وزیراعظم صاحب! میں اس معاملہ میں یکسو ہوں کہ آئین کےمطابق 90 روز میں الیکشن کروانا آپ کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مرضی کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہونا تھے ۔ شہباز حکومت نے وسیع تر قومی مفاد اور ناگزیر وجوہات پرجو اقدامات کیے انتخابات کو فروری تک ملتوی کرنے کی گنجائش دے گئے۔ اگر موافق حالات کے باوجود ا لیکشن نہیں ہوسکے تو یہ بات طے کہ فروری میں بھی الیکشن کے انعقاد میں آپکی حوصلہ شکنی رہنی ہے۔ میرا ڈر ہے کہ آئین سے جو انحراف’’ نظریہِ ضرورت‘‘ کے تحت ہوچُکا ۔ ایسے نظریہ کی ضرورت من و عن فروری میں بھی موجودرہنی ہے۔ خدشہ ہے، انتخابات کے مزید التوا پریقیناً آئین ساقط ہونے کو ہے‘‘۔

آج کی تاریخ تک تو حکومت سے حکمران’’ کمبل‘‘بن کر بغل گیر رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع کہ حکومت’’کمبل‘‘بن کر حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے ۔ بظاہر موجودہ حکومت کا اس کمبل سے جان چھڑانا ناممکن نظر آتا ہے۔ نواز شریف آ بھی گئے تو بلا شبہ بہت پُرتپاک استقبال متوقع ہے ۔ اگرچہ مینار پاکستان پر بہت بڑا شو ہوگا۔ بیانیہ مع الیکشن کی غیر موجودگی میں چند ماہ اندر تاثر زائل ہو جائے گا۔ یوں اسحاق ڈار ایسی صورتحال میں انتقام کی زحمت سے بھی محفوظ رہینگے اور معیشت کی بحالی بھی وعدہ فردا رہنی ہے ۔ معمہ لاینحل کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل میں دھکیلنے پر معاف کیونکر کیا جائے؟ یقیناً ماضی میں ایسا کام شجر ممنوعہ رہا ۔ مگر ادارے کیخلاف گھناؤنی سازش پر تو اُنکو گرفت میں نہ لانا ادارے کے اپنے لیے مضر ہے۔ نواز شریف نے قومی مجرموں کا نام لے ہی لیا تو ایسا شور شرابا کیوں؟ کہ بے چارے نواز شریف کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ نواز شریف ! تمہاری مجال کہ’’ اکبر نام لیتا ہے، خدا کا اس زمانے میں‘‘۔ بالآخر غائب ہونے کے بعدآج بروز جمعرات 12بجے دوپہر میری حسان نیازی سے ملاقات ہو گئی ہے۔ بہت کچھ کہنے کو،فی الحال زبان گنگ، ملاقات پر اللہ کا سجدہ شکر بجا لاتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ