گول میز کانفرنس:آئینی تصفیے کی قابلِ ذکر کوشش : تحریر الطاف حسن قریشی


نہرو رِپورٹ کی منظوری کے وقت کانگریس کے لیڈروں نے برطانوی حکومت کو اَلٹی میٹم دیا تھا کہ اگر اُن کی تجاویز دستوری اصلاحات میں شامل نہ کی گئیں، تو وہ سول نافرمانی کی تحریک چلائیں گے۔قائدِاعظم نے19جون 1929ء کو برطانوی وزیرِاعظم ریمزے میکڈونلڈ کو لندن میں گول میز کانفرنس بلانے کا مشورہ دِیا جس میں ہندوستان کے آئینی مسائل کے تصفیے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی جائے۔ اِس پر سائمن کمیشن کی رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے سے قبل وائسرائے ہند لارڈ ارونل نے برطانوی حکومت کے اِس فیصلے کا اعلان کیا کہ ہندوستان کے سیاسی تنازعات حل کرنے کیلئے لندن میں بہت جلد گول میز کانفرنس بلائی جائے گی۔ گاندھی نے کانفرنس میں شرکت کے لیے یہ پیشگی شرط رکھی کہ فوراً اعلان کیا جائے کہ وہ ایک ایسا آئین تیار کرے گی جس میں ہندوستان کو درجۂ نوآبادیات دیا جائے گا اور اِقتدار کانگریس کو فوری طور پر منتقل کر دیا جائے گا۔ برطانوی حکومت نے کسی بھی یقین دہانی سے انکار کیا، تو گاندھی نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ کانگریسی لیڈر گرفتار کر لیے گئے۔ مسلم زعما سول نافرمانی کی تحریک سے الگ تھلگ رہے۔ مولانا محمد علی جوہرؔ جو کانگریس میں بڑے فعال رہے تھے، اُنہوں نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’سول نافرمانی کا مقصد ہندوستان کی مکمل آزادی کے بجائے سات کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندو مہاسبھا کا غلام بنا دینا ہے۔‘‘ قائدِاعظم نے بھی تحریکِ سول نافرمانی کی مخالفت کی۔ علامہ اقبال اور پنجاب کے سات سیاسی قائدین نے گول میز کانفرنس کے انعقاد کا خیرمقدم کیا۔ اُنہوں نے اُس کی کامیابی کے لیے دو شرائط پیش کیں۔ ایک یہ کہ ہندو مسلم تنازعات طے کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ دوسری یہ کہ کانفرنس میں قوم کے حقیقی نمائندے مدعو کیے جائیں تاکہ آئین سازی میں حقیقی پیش قدمی ہو سکے اور آزادی کے خدوخال واضح طور پر متعین کر دیے جائیں۔برطانوی حکومت نے گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے 57حضرات کے ناموں کا اعلان کیا جن میں سولہ نوابی ریاستوں کے نمائندے اور اَٹھارہ مسلمان شامل تھے۔ ہندوستان کی سطح کے نمائندوں میں قائد ِاعظم، مولانا محمد علی جوہر، سر آغا خاں، اے۔کے۔ فضل الحق، سر محمد شفیع، شاستری، تیج بہادر سپرو اَور ڈاکٹر امبیدکر نمایاں تھے۔ جارج پنجم نے 12 نومبر 1930ء کو سٹیٹ چیمبر پیلس میں کانفرنس کا افتتاح کیا جس کا پہلے سے کوئی ایجنڈا طے نہیں تھا۔ اجلاس میں نوابی ریاستوں اور ہندوستانی نمائندوں کے درمیان اِس بات پر مکمل اتفاق ہو گیا کہ ہندوستان میں وفاقی حکومت قائم کی جائے۔ اِسی اجلاس میں مولانا محمد علی جوہر نے اپنی زندگی کی آخری تقریر کی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ’’آج مَیں جس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں، وہ یہ ہے کہ مَیں اپنے وطن صرف اِسی صورت واپس جاؤں گا کہ ارمغانِ آزادی میرے ہاتھ میں ہو، ورنہ مَیں غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔ پس اگر تم ہندوستان کو آزادی نہیں دو گے، تو یہاں میری قبر کی جگہ دینا پڑے گی۔‘‘ اُن کی خوش بختی کا عالم دیکھیے کہ اِس تقریر کے ایک دو ہفتوں بعد اُن کا انتقال ہو گیا اور وُہ بیت المقدس میں دفن کیے گئے۔قائدِاعظم نے پہلی گول میز کانفرنس میں بھرپور حصّہ لیا۔ وہ مختلف سب کمیٹیوں کے رکن منتخب کیے گئے جس میں اُنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے مدبرانہ خیالات کا آزادانہ اظہار کیا۔ خاص طور پر سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے حق میں زبردست دلائل دیے۔ واقعات نے ثابت کیا کہ سندھ کی انتظامیہ بمبئی کی انتظامیہ سے یکسر جدا ہے۔ بس بمبئی لیجیسلیٹو کونسل میں سندھ سے نمائندے منتخب ہو کر آ جاتے ہیں اور شاذونادر ہی سندھ کے معاملات زیرِبحث لاتے ہیں۔ قائدِاعظم نے یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا کہ سندھ کا جوڈیشل سسٹم قطعی طور پر جدا ہے۔ سندھ چیف کورٹ سے اپیل براہِ راست پریوی کونسل میں کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے اِس مفروضے کی بھی اعدادوشمار کی روشنی میں تردید کی کہ سندھ خسارے کا صوبہ ہے، وہاں فصلیں لہلہاتی ہیں اور اِس کے اندر آگے بڑھنے کی بےپایاں صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔گول میز کانفرنس میں جس دوسرے بڑے مسئلے پر کھل کر بحث ہوئی، وہ فوج کو ہندوستانی بنانے سے متعلق تھا۔ قائدِاعظم نے ٹھوس حقائق کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ اِس وقت فوج کے تین ہزار افسروں میں سے صرف ستر ہندوستانیوں کو شاہی کمیشن ملا ہے، چنانچہ وہ اِس مطالبے پر زور دَیتے رہے کہ برطانوی افسروں اور سپاہیوں کی تعداد کم کی جائے اور ہندوستان میں سینڈہرسٹ کی طرز پر ایک فوجی تربیت گاہ قائم کی جائے۔ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ فوج کو ہندوستانی بنانے کی مدت کا تعین بھی کر دیا جائے اور یہ بھی طے کر لیا جائے کہ آئندہ کسی انگریز کو فوج میں کمیشن نہیں دیا جائے گا۔ اُنہوں نے اِس بات پر بھی اصرار کیا کہ فوج میں بھرتی صرف قابلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔اِسی تندہی سے قائدِاعظم نے اِس سب کمیٹی میں فعال کردار اَدا کیا جس کا تعلق وفاقی اسمبلی کی ہیئت سے تھا۔ اُنہوں نے نامزدگیوں کی سختی سے مخالفت اور یہ احساس اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ کوئی بھی قوم باجماعت یہ بات پسند نہیں کرے گی کہ اُس کے نمائندے نامزد کیے جائیں۔ قائِداعظم آئینی مسائل پر بحث کے دوران اِس حقیقت کی نشان دہی کرتے رہے کہ کوئی بھی آئین جس میں مسلمانوں کو اُن کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جائے گی، وہ چوبیس گھنٹے بھی نہیں چل سکے گا۔اِن سب کمیٹیوں میں وفاقی حکومت کے قیام اور صوبوں میں دوعملی کا نظام ختم کرنے پر اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی پر بھی سب متفق ہو گئے، مگر مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور ہندو مسلم تنازع کے گھمبیر مسائل حل طلب ہی رہے جس کا سب سے بڑا سبب کانگریس اور مہاسبھائی قیادتوں کے متعصبانہ رویّے اور اَنگریزوں کے جان نشین بننے کی بےلگام خواہش کا غلبہ تھا۔ تین اجلاسوں کے بعد گول میز کانفرنس کی ناکامی کا اعلان ہو گیا، مگر اِس کے بطن سے کمیونل ایوارڈ نے جنم لیا جس میں خاصی اچھی آئینی پیش رفت ہوئی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ