غزہ اور گمشدہ مسلم اُمہ : تحریر انصار عباسی


ایک وٹس ایپ میسیج ملا جس میں کچھ یوں لکھا تھا کہ آئندہ 72 گھنٹے بہت اہم ہیں، تین لاکھ اسرائیلی فوج کسی بھی وقت غزہ میں داخل ہو کر غزہ اور حماس کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیں گے اس لیے مسلم امہ سے درخواست ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دعا کریں۔

میسیج میں ایک مخصوص دعا بھی لکھی گئی تھی۔ بلاشبہ ہم سب مسلمانوں کو اس موقع پر اپنے مظلوم بہنوں، بھائیوں، بچوں کے لیے دعا ضرور کرنی چاہیے لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ مسلم امہ ہے کہاں؟ پچاس کے قریب مسلمان ممالک، دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان، ہماری فوجیں، ہماری حکومتیں، ہمارا اثرورسوخ سب کچھ ہوتے ہوئے مسلم امہ کو صرف دعاؤں کے لیے کہا جا رہا ہے۔

عملا کچھ نہیں کرنا۔ کوئی مسلمان ملک، کوئی مسلم حکمران، کوئی بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کو ظلم سے بچانے کے لیے کھڑا کیوں نہیں ہو رہا۔ مظلوم کی مدد نہیں کر سکتے، ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتے، تو کوئی مسلمان حکمران، کوئی مسلمان ملک غزہ پر اسرائیلی حملے رکوانے کے لیے بھاگتا دوڑتا بھی نظر کیوں نہیں آ رہا۔

زبانی کلامی مذمتوں یا اظہار یکجہتی اور مطالبوں سے غزہ کے مظلوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم رک تو نہیں سکتے۔ اسرائیل کی گذشتہ چار دن کی لگاتار بمباری سے غزہ کے کئی علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ مسجدوں،اسکولوں،اسپتالوں، رہائشی اور کاروباری عمارتوں سب کو بلاتفریق نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے، جن میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

غزہ کا پانی، بجلی بند کر دیے گئے اور خوراک، دواؤں اور کسی بھی قسم کی سپلائی نہیں کی جا رہی۔ اتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، ظالم اپنے ظلم کی تمام حدوں کو پار کر تے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بلاتفریق غزہ میں رہنے والوں کا قتل عام کر رہا ہے اور دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے جبکہ مسلم امہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔

امریکا ہمیشہ کی طرح ظالم اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے، اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے کیوں کہ مرنے والے مسلمان ہیں۔ حماس کے حملے نے اسرائیل کو پاگل کر دیا۔

اسرائیل اپنے بارے میں یہ سمجھتا تھاکہ اس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، اس کا دفاعی نظام، اس کے جدید ہتھیار، فوج، سیکیورٹی اور انٹیلیجنس نظام اسے ایک طاقت ور ملک بناتے ہیں لیکن حماس کے حملہ نے اسرائیل کے پورے کے پورے دفاعی اور انٹلیجنس کے نظام کو ننگا کر دیا۔

اسرائیل کی ناک کے نیچے نجانے کب سے حماس اس حملے کی تیاری کر رہا تھا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اوراتنا بڑا حملہ ہو گیا ۔ حماس کا اسرائیل پر یہ حملہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی دہائیوں پر محیط نہ ختم ہونے والے مظالم کا نتیجہ تھا۔

اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ آیا حماس نے یہ حملہ کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچا یا نہیں لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ظالم کومظلوم پر ظلم کرنے کی ہمیشہ کھلی چھٹی رہے گی اور مظلوم ہمیشہ ظلم ہی سہتا رہے گا اور خاص طور پر جب مظلوم مسلمان ہو چاہے اس کا تعلق فلسطین سے ہو یا کشمیر سے ہو۔

کیا مسلمانوں کا خون یوں ہی بہتا رہے گا۔ فلسطین اور کشمیر تو کئی دہائیوں سے اسرائیل اور بھارت کے مظالم کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ظالم اپنا ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ یہاں تو مختلف حیلہ بہانوں سے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں بھی لاکھوں مسلمانوں کو بے دردری سے مارا گیا،ان ممالک کو تباہ کیا گیا۔

پاکستان کو بھی عراق اور افغانستان بنانے کی سازشیں بنیں گئی، جو ناکام و نامرادہوئیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی مسلمان متحد نہیں ہوتے۔ یاد رکھیں جب تک مسلمان ممالک میں اتحاد نہیں ہوتا، ہم ایک ایک کر کے پٹتے ہی رہیں گے، خون ہمارا ہی بہتا رہے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ