ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کیلئے: تحریر مظہر عباس


؎ ہم جیتیں گے

حقا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے1983ءمیں یہ ترانہ ’ مجاہدین فلسطین‘کیلئے لکھا تھا۔ آج کا فلسطینی نوجوان جو انہی گولیوں اور بمباریوں میں جوان ہوا ایک نئے فلسطین کو جنم دے رہا ہے اس سازش کو ناکام بنارہا ہے۔ اپنوں کی بے وفائی کا بھی شکوہ کررہا ہےبرسوں گولیوں کا جواب پتھر سے دینے والا آج اپنے ہی علاقےپر قابض اسرائیل اور صہیونی قوتوں کوپیچھے دھکیل رہا ہے۔ وہ فیض صاحب کے اسی نعرہ کی تعبیر بننے جارہا ہے۔

دوستو؛ یہ مسئلہ جذباتی نہیں مگر جذبات سے عاری بھی نہیں کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم نےاور عرب و اسلامی دنیا نے جب قابض کا قبضہ قبول کرنے کی سازش کی تو وہ مظلوم فلسطینی چیخ پڑا ۔ اسرائیل اور عرب دنیا نے خاموشی سے رشتے قائم کرنے شروع کیے تو ہم خاموش رہے۔ ہم نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات پر تو تشویش کا اظہار کیا مگرعرب ۔ اسرائیلی بات چیت پرہم خاموش رہے۔فلسطینیوں نے آج ایک بار پھر اس مسئلے کو زندہ کردیا ہے جس کو مکمل طور پر سردخانے میں ڈالنے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کامیاب کوشش کی تو یہ بات ’ سفید ہاتھی‘ امریکہ کو پسند نہ آئی اور اس نے اپنے ناجائز بچے کو جائز بنانے کی خاطر فلسطینیوں کو عرب دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ اگر آج کا یہ فلسطینی نوجوان کھڑا نہ ہوتا تو شاید سازش کامیاب ہوجاتی۔

ہم خاموش رہے جب شام اور لیبیا تباہ کیے گئے جو عرب دنیا میں دو ایسے ممالک تھے جو فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے رہتے تھے، عملی طور پر ساتھ دیتے تھے۔ آج ایک ایران بچا ہے جو حزب اللہ اور حماس کےشانہ بشانہ ہے۔ ایک وقت تھا ’ نیو اسلامک ورلڈ‘ کا تصور آیاتھا جس کے پس منظر میں دوسری اسلامی سربراہی کا نفرنس لاہور میں منعقد کی گئی۔ کیا لمحہ تھا وہ جب پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو، سعودی عرب کے شاہ فیصل، شام کے حافظ اسد، لیبیا کے کرنل قدافی، فلسطین کے یاسر عرفات ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہوئے، عربوں نے اس سے پہلے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا تجربہ کرلیا تھا۔ تیسری دنیا اور غیرجانبدارانہ تحریکیں منظم ہورہی تھیں۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو اسے ’ اسلامی بم‘ کا نام دیا گیا۔ امریکہ کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ آہستہ آہستہ ان رہنماؤں کو راستے سے ہٹانے کامنصوبہ تیار ہوا اور پھر وہ اس میں کامیاب ہوگئے کوئی پھانسی چڑھا تو کوئی قتل کروا یا گیا، ہم خاموش رہے کیونکہ ہم امریکی اتحادی تھے اور یوں فلسطینی کاز کمزور ہوتا گیا کیونکہ آواز اٹھانے والے خاموش کر دیئے گئے۔

جنگ بہرحال کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی، جنگ تو بجائےخود ایک مسئلہ ہے۔ مگر یہ جنگ حقوق کی جنگ ہے ظالم کو ظالم اور ناجائز کو ناجائز کہنے کی جنگ، اپنے گھر پر قبضہ خالی کرانے کی جنگ ہے۔ ہم تو خیر کیا کسی کا ساتھ دینگے البتہ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ کسی ایسی سازش کا حصہ نہ بنیں جس کے ذریعہ شاید ہمیں بھی مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم خاموشی سے اس ڈپلومیسی کا حصہ بنیں جس کے نتیجے میں اسرائیل،بھارت اور چند اہم عرب ممالک کو قریب لایا جارہا ہے۔ ہم معاشی طور پر اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ ہمارے لیے صورتحال مشکل سے مشکل تر ہوگئی ہے۔ ایک طرف عالمی معاشی اداروں کا دباؤ تو دوسری طرف جو ممالک امداد ینے کو تیار بھی ہورہے ہیں وہ بھی اگر اس کھیل کا حصہ ہیں تو آپ کیا کریں گے۔ ہم نے اپنےآپ کو معاشی طور پر اتنا مفلوج کردیا ہے کہ ’ بھیک دینے والا بھی ’’خیرات ‘‘ دینے کو تیار نہیں۔

قومیں جذبوں سے بنتی ہیں محض نعروں سے نہیں۔ ہم جاپان اور ویتنام کی مثالیں اپنے سامنے رکھیں ،جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کی جدوجہد کو دیکھیں۔ہم بدقسمتی سے75 سال میں امریکی پراکسی وار کا حصہ رہے کبھی سوویت یونین کے خلاف کبھی کمیونسٹوں اور بائیں بازو کی تحریکوں کو امریکہ کو خوش کرنے کیلئے کچلا ، کبھی ’ جہاد افغانستان‘ تو کبھی ایک ایسی ’ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ کا حصہ بنے جس کے نتیجے میں دنیا سے دہشت گردی تو ختم نہ ہوئی البتہ نئے دہشت گردوں نے جنم لے لیا۔ آج اسلامی دنیا میں قوم ایک طرف ہے اور حکمران دوسری طرف معاشی طور پر بھی یرغمال اور سیاسی طور پر بھی۔ خیرآزادی اظہار تو عرب دنیا کا مسئلہ کبھی نہیں رہا کہ ماسوائے الجزیرہ کے، جسے بند کرنے کی بہت کوشش بھی کی گئی انہی عرب ممالک کی طرف سے ۔باقی تو خبروں کیلئے مغربی میڈیا کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔

ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ محض بیانات سے آگے جانے کی نہ ہمت ہے نہ طاقت۔حیران ہوں ان لوگوں پر اور خارجہ امور رکھنے والوں پر جو سمجھتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی بڑی کامیاب رہی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں نجی شعبہ کی یونیورسٹی میں ایک کتاب کی رونمائی میں جو پاکستان کی خارجہ پالیسی پرتھی زیادہ تر تقاریر میں75سالہ پالیسی کو کامیاب قرار دیا جارہا تھا اور مجھ جیسا ،جسے اس حوالے سے اپنی کم علمی اور جہالت کا اعتراف ہے ،بس یہ سوچ رہاتھا کہ آخر ان برسوں میں ہم تنہا ہوئے ہیں کہ توانا؟ ہمارے دوستوں میں اضافہ ہوا یا کمی۔ فلسطین کو تو چھوڑیں کتنے اسلامی اور عرب ممالک ہیں جو کشمیر پر آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کیوں کھڑے ہوں جب ہم نے خود ہی اپنے پیروں پر کھڑے رہنا نہیں سیکھا۔

ہمارے دوست اور جیو کے ساتھی شاعر فاضل جمیلی نے چند سال پہلے فلسطینیوں پر مظالم کے حوالے سے ایک خوبصورت نظم’عالمی مقتول‘ لکھی تھی جس کے دواشعار آج کی صورتحال کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں؎

کوئی یہاں سے پرے بھی ہے جشن میں شامل

جو میرے خون کو پیتا ہے اور جیتا ہے

مگر لہو کے نشے میں یہ بھول بیٹھا ہے

کہ زخم کھا کے فلسطین ہوگیا ہوں میں

بشکریہ روزنامہ جنگ