ہم تو سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلایوں ہی بیٹھے بیٹھے اس شعر کا خیال آیا اور ذہن گزشتہ کئی دہائیوں کی طرف چلا گیا۔ میں اردو میں آگے سے آگے پسندیدگی کی وجہ سے اس میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ایک کاوش یہ بھی کی کہ جب اپنا سکول کھولاتو انگلش اور اردو کو شروع سے ایک ہی سطح پر رکھا اس میں شک نہیں کہ یہ اپنے نوعیت کا ایک اپنا تجربہ تھا جب ہر طرف انگلش کا دور دورہ ہو رہا تھا تو انگلش کی نفی نہ کرتے ہوئے بھی میں نے اردو کو اس کے برابر رکھا۔ ساری عمر اردو پڑھاتے گزر گئی پھر ہوتے ہوتے تحریک نفاذ اردو سے رابطہ ہوا میں ہوتے ہوتے لاہور سے پنجاب کی سطح تک آ گئی۔ جس خطرے کے پیش نظر میں نے اپنے سکول میں انگریزی اور اردو کو ایک سطح پر رکھا تھا کہ ہمارے بچے اپنی شناخت نہ کھویں ۔تحریک نفاذ اردو میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد بہت سے لوگوں سے رابطے ہوئے اپنے شاگردوں کے ساتھ تو پہلے ہی میں اس پر کام کیا کرتی تھی۔میں نے اے لیول کو اردو پڑھانا شروع کیا تو بچوں کو رومن اردو لکھتے ہوئے دیکھ کر بہت افسوس ہواآنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ کے مصداق مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا اور اس وقت ان بچوں میں اخلاقیات کے وہ مسائل دیکھے جو ہمارے اس وقت کے معاشرے سے بالکل مختلف تھے۔جہاں تک رومن انداذ تحریر کا تعلق ہے تو یہ عمل تو صرف یہ اس وقت اپنایا جاتا تھا جب ہم غیر ملکی لوگوں کو اردو پڑھاتے تھے۔اسکو کافی ٹھیک کرنے کی کوشش کی چار پانچ سال پہلے جب تحریک نفاذ اردو میں ایک کارکن کی حیثیت سے شمولیت احتیار کی تو یہ راز کھلا کہ رومن اردو کا زہر توپوری طرح سرائیت کر چکا ہے۔اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہم کس طرف کس رستے پر کہاں جا رہے ہیں۔ زبان کے ساتھ کوی بھی ثقافت وابستہ ہوتی ہے چنانچہ غیر ملکی زبان کے ساتھ غیرملکی تہذیب بھی در آئی۔انتظار حسین کے افسانے کشتی کا ایک جملہ یاد آ رہا اندر حبس باہر بارش ،جائیں تو کدھر جائیں۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ اردو کے الفاظ سمجھانے کے لیے انگریزی لفظ میں ترجمہ کر کے بتانا پڑتا ہے۔ ایک اور تکلیف دے امر یہ ہیکہ ایک طرف اونچے سکولوں میں جرمنی زبان اور ہسپانوی زبان بڑھائی جا رہی ہے والدین کو اب بھی شعور نہیں کہ کیا کچھ تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔۔آج پوری قوم ایک ایسے دہانے پر کھڑی ہیکہ مجموعی طور پر پاکستانی قوم کو نہ انگلش آتی ہے نہ اردو۔نہ خدا ہی ملانا وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے