ذرا بتاو تو کیا ہوا ہے … تحریر : ڈاکٹر صغرا صدف


بساط تو نہ جانے کب سے بچھی ہوئی تھی۔ شاید اس وقت سے جب یہ ملک وجود میں آیا اور کھلاڑیوں نے داو آزمانے شروع کر دیے۔ چہار اطراف سے ایسے دوستوں میں گھرا ہوا،جو کہنے کو بہت اپنے لیکن دلوں میں بیر پالنے والے۔ سو ہر قدم احتیاط لازم رہی۔ مگر آج برس ہا برس سے بھائی چارے اور اچھے ہمسائے کا کردار ادا کرتے اور یک طرفہ محبت نبھاتے تھک گیا ہے۔ چوری اور سینہ زوری کا سامنا کرتے اس کی برداشت اورحوصلے جواب دے گئے ہیں۔ جن کے لئے اپنا سکھ چین برباد کیا وہ ہمیں گِرانے میں مگن ہوں اور غیروں کے ترانے گائیں تو احساس پر گہری ضرب لگتی ہے۔ مہمان کو تو ویسے بھی ایک دن لوٹنا ہوتا ہے۔ اچھا مہمان اپنی عزت نفس اور میزبان کی برداشت کو مجروح نہیں ہونے دیتا خود ہی احترام کی چادر اوڑھ کر رخصت طلب کرتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آبادی کی زیادتی اور مسائل کے شکار میزبان نے کچھ غیر قانونی طور پر آنے اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں کو واپس بھیجنے کی بات کی تو ملک کے اندر ہی ایک حلقے نے واویلا شروع کر دیا اور دنیا کو مدد کیلئے پکارنا شروع کر دیا۔ دنیا کو پاکستان کا بوجھ بانٹنا چاہیے اور زبانی ہمدردی کرنے والوں کو انھیں اپنے ملک میں پناہ دینی چاہیے کہ پاکستان اب مزید اندھا دھند سمجھوتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ہم نے صرف عالمی قوتوں سے ہی سمجھوتے نہیں کئے بلکہ اپنے ارد گرد بسنے والے ملکوں کی خوشی کی خاطر بھی کیے۔ کسی کیلئے اپنے ہی دائرہ کار میں موجود تیل نکالنے سے گریز کیا اور کسی کی خاطر سرحدوں پر شب وروز آمدورفت کو نظر انداز کیا۔

اب سنبھلنے اور سازشوں کے جال سے نکلنے کا وقت ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ سازشیں بنی جاتی ہیں، اب صرف سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جاتی ہے اور پھر واہموں اور شکوک کے خشک پتے اس چنگاری کی ایسے پذیرائی کرتے ہیں کہ لمحوں میں یہ بہت سے خوابوں اور توانائیوں کو راکھ کر دیتی ہے۔ ہر جماعت کے پیروکاروں کی وفا اس بات کی متقاضی ہے کہ صرف اس کا لیڈر ملک و قوم کا سچا وفادار اور پکا نجات دہندہ ہے۔آزمائے ہوئے وقت سے پہلے نکالے جانے کو جواز بنا کر دوبارہ خدمت کا موقع چاہتے ہیں۔ نئی سیاسی جماعتوں میں تمام پرانے اور پِٹے ہوئے چہرے ہیں۔ سیاست میں نئے آنے والوں میں اکثریت سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ طلبا یونینز بھی متحرک نہیں اور طلبا کی توجہ بھی منتشر ہے۔ملک میں نت نئے ڈراموں نے انھیں سیاست اور حکومت سے خاصا بیزار کر دیا ہے۔ سیاستدانوں کو جمہوری نظام کے استحکام کے لئے طلبا کی تربیت کرنی چاہیے، اسی صورت حقیقی لیڈرشپ میسر ہوگی جو اختیارات کو نچلے طبقے تک لے جانے کا وسیلہ بنے گی۔ موجود اور دستیاب جماعتوں میں کوئی بھی وقت کے چیلنجز کی پکار نہیں سن رہی۔موسمیاتی تبدیلی کیا صورت اختیار کرے گی، زراعت کا کیا ہوگا، آبادی کو کیسے کنٹرول کرنا ہے،ملک میں پنپتی شر پسندی کا راستہ کیسے روکنا ہے اقوام عالم سے اپنے تعلقات کیسے بحال کرنے ہیں، ہمسایہ ملکوں کی رنجشوں سے کیسے نکلنا ہے، معیشت کو سنبھالنے کیلئے کون سا طریقہ اختیار کرنا ہے،ٹیکس کا دائرہ کار کیسے بڑھانا ہے، معاشرے میں کئی قسم کے طبقاتی نظام تعلیم کو کیسے سدھارنا ہے، گلی گلی میں من مرضی کے سلیبس پڑھانے والے اداروں کو کیسے کنٹرول کرنا ہے اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کیلئے کیا قدم اٹھانا ہے، کسی کی ترجیح میں شامل نہیں۔ سب کی ترجیح صرف حکومت ملنا اور حکومت کرنا ہے۔ ایسے میں خدمت خلق کا تصور صرف منشور تک ہی محدود رہنے کا خدشہ ہے۔

شاہین مفتی کے تازہ اور خوبصورت شعری مجموعے لاپتہ کا پتہ سے ایک غزل آپ کے لئے۔

بساط اب کے کچھ اس طرح سے بِچھی ہوئی ہے

ہر اک کھلاڑی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے

جو ہوسکے تو مرے لئے بھی تم ایک نسخہ خرید لانا

سنا ہے اب تک کسی گلی میں دکانِ حافظ کھلی ہوئی ہے

کبھی جو گزرو تو اِس گلی میں ذرا سا رکنا

یہیں وہ گھر ہے کہ جس پہ اب تک تمہاری تختی لگی ہوئی ہے

وہ دیر تک ساتھ چلنے والے بچھڑ چکے ہیں بچھڑنے والے

اور ان کے قدموں کی دھول اب تک ہمارے دل پہ جمی ہوئی ہے

میں اِس کو اِسکی ہر ایک آہٹ سے جانتی ہوں

یہ کم نصیبی جو بچپنے سے ہی ساتھ میرے بڑی ہوئی ہے

اس ایک پل میں ہی سارا منظر بدل گیا ہے

کہیں پہ تختہ کِھنچا ہوا ہے کہیں پہ سولی گڑی ہوئی ہے

نیا کوئی سانحہ ہوا ہے ذرا بتاو تو کیا ہوا ہے

کیوں چاند اتنا بجھا ہوا ہے کیوں رات اتنی ڈری ہوئی ہے

بشکریہ روزنامہ جنگ