بھارت سرکار اور میڈیا کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر ہے کہ انیس جون کو کینیڈا کے شہر وینکوور کے نواحی قصبے سرے میں ایک گوردوارے کے باہر ہردیپ سنگھ نجار کے جسم میں پندرہ گولیاں داغنے کی واردات جرائم پیشہ گینگز کی آپس کی لڑائی کا شاخسانہ ہے اور یہ الزام درست نہیں کہ اس قتل کے ڈانڈے کینیڈا میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات انڈین انٹیلی جینس ایجنسی را کے افسر پون کمار سے ملتے ہیں۔
وہ الگ بات کہ ہردیپ سنگھ نجار بھارت کو ایک عرصے سے مطلوب تھا اور دو ہزار اٹھارہ میں کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے دورہِ بھارت کے دوران پنجاب کے تب وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ نے کینیڈا میں مقیم مطلوب جن دہشت گردوں کی فہرست جسٹن ٹروڈو کو پیش کی اس میں ہر دیپ نجار کا نام بھی شامل تھا۔اس کے سر پے دس لاکھ روپے کا انعام بھی تھا۔
مگر میڈیا پر جو بتایا جا رہا ہے اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ بھارت ایک شریف ملک ہے جو اپنی جغرافیائی حدود کے اندر تو دہشت گردوں کا قلع قمع کرتا ہے البتہ کسی اور ملک میں جا کے کسی مخالف کو قتل کرنے جیسی گھٹیا حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
جب جسٹن ٹروڈو نے بھری پارلیمنٹ میں نام لے کے کہا کہ بھارتی خفیہ کے ایجنٹوں کے ہاتھوں ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اس انکشاف کے تین روز بعد ہی کینیڈا کے شہر ونی پیگ میں سکھدیول سنگھ عرف سکھا کو بھی کسی نے اڑا دیا۔ بھارتی حلقے اس واقعے کو بھی سکھ جرائم پیشہ گروہوں کی باہمی لڑائی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔یہ الگ بات کہ سکھدیول بھی ہردیپ سنگھ نجار کی طرح بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو مطلوب تھا۔
ہردیپ سنگھ نجار کے قتل سے بھی ایک برس پہلے جون دو ہزار بائیس میں پچھتر سالہ رپودمن سنگھ کو سرے کے ہی علاقے میں قتل کر دیا گیا۔ وہ کئی برس سے الگ تھلگ زندگی گزار رہا تھا۔
بس وہ انیس سو پچاسی میں ایئر انڈیا کی کینیڈا جانے والی پرواز میں بم دھماکے کے سلسلے میں بھارتی تحقیقاتی اداروں کو مطلوب تھا۔اس واردات میں طیارے میں سوار تین سو بتیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گزرے جون میں نہ صرف ہردیپ سنگھ نجار کینیڈا میں قتل ہوا بلکہ برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اوتار سنگھ کھنڈا کی موت واقع ہو گئی۔ اوتار کے قریبی حلقے کا کہنا ہے کہ اسے زہر دیا گیا۔اوتار بھارتی اداروں کی مطلوبہ دہشت گردوں کی فہرست میں ہردیپ سنگھ نجار کی طرح خالصتان لبریشن فورس کا سابق کمانڈر تھا۔
اس سال چھ مئی کو لاہور کے جوہر ٹاون میں پرمجیت سنگھ پنجوار کو صبح کی سیر کے دوران اس کے گھر کے قریب گولی مار دی گئی۔
اسے خالصتان کمانڈو فورس کا سابق کمانڈر بتایا گیا۔انڈین میڈیا کے مطابق پرمجیت نوے کی دہائی میں بھارت چھوڑ کے سرحد پار چلا گیا۔ وہ ایک عرصے سے شدت پسند سرگرمیوں سے لاتعلق تھا۔البتہ پرمجیت پر الزام ہے کہ وہ مسلح جدوجہد سے دستبردار ہو کر منشیات کا اسمگلر بن گیا تھا۔
یہ صرف سابقہ اور حالیہ دور میں سرگرم خالصتانیوں کے قتل کا قصہ نہیں۔کشمیر سے وابستہ سابق جہادی بھی بھارت کی بین الاقوامی ہٹ لسٹ میں ہیں۔
گزشتہ ماہ آٹھ ستمبر کو راولا کوٹ میں ایک زمانے تک کشمیر میں سرگرم جماعتِ الدعوہ سے منسلک محمد ریاض عرف ابو قاسم کو مسجد کے باہر دو نامعلوم نقاب پوشوں نے قتل کر دیا۔اس سے پہلے بیس فروری کو حزب المجاہدین کے ایک سابق کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کو دو نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے راولپنڈی میں نشانہ بنایا اور اس واردات کے ایک ہفتے بعد کراچی میں البدر مجاہدین کے ایک سابق کمانڈر خالد رضا بھی قتل ہو گئے۔
اب تک کی جتنی وارداتیں بیان کی گئی ہیں ممکن ہے کہ ان میں نئی دلی کا براہ راست ہاتھ ثابت کرنا آسان نہ ہو۔مگر بھارت کے سابق سیکریٹری داخلہ اور مودی کابینہ کے مرکزی وزیر برائے آر کے سنگھ کا دو ہزار پندرہ میں رسالہ انڈیا ٹوڈے کو دیا جانے والا انٹرویو یاد کرتے ہیں۔
دو ہزار پانچ میں انٹیلی جینس بیورو کے سابق ڈائریکٹر اجیت دوال ( قومی سلامتی امور کے موجودہ مشیر ) کو اطلاع ملی کہ داود ابراہیم کی بیٹی ماہ رخ کی جاوید میاں داد کے بیٹے جنید سے شادی طے پائی ہے۔
ان کا ولیمہ تئیس جولائی کو گرینڈ حیات دبئی میں ہو گا۔داود ابراہیم نہ صرف بھارت کو سب سے مطلوب شخص تھا بلکہ اقوامِ متحدہ نے بھی اسے دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔لہذا اس کی ذاتی نقل و حرکت انتہائی محتاط اور محدود تھی۔مگر بھارتی انٹیلی جینس کو پکی خبر تھی کہ داود کم ازکم بیٹی کی تقریب میں شرکت کے لیے دبئی کے گرینڈ حیات ضرور آئے گا۔یہی ایک نادر موقع تھا داود کو ٹھکانے لگانے کا۔
مگر اس منصوبے میں بھارت کا سرکاری ہاتھ نظر نہ آئے۔اجیت دوال نے داود ابراہیم گینگ سے علیحدہ ہونے والے چھوٹے راجن کو اس آپریشن میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
چھوٹا راجن اس وقت بنکاک میں رہ رہا تھا اور اسے سن دو ہزار میں داود ابراہیم کے آدمیوں نے مارنے کی کوشش کی تھی۔دشمن کا دشمن ہمارا دوست کے مصداق چھوٹا راجن داود کا کام اتارنے پر تیار ہو گیا۔بھارتی ایجنسیوں کو یہ فائدہ ہوتا کہ مشن کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے دامن پر کوئی چھینٹا نہ آتا اور اسے گینگ وار کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا۔
چھوٹے راجن نے اپنے دو ماہر ترین نشانچیوں وکی ملہوترا اور فرید تناشا کو انٹیلی جینس بیورو کو اعتماد میں لیتے ہوئے زمینی سرحد سے مغربی بنگال اسمگل کیا۔ حالانکہ دونوں سرکار کی مطلوبہ دہشت گرد فہرست میں شامل تھے۔
وکی اور فرید کو مغربی بنگال سے خاموشی کے ساتھ دلی پہنچایا گیا۔گرینڈ حیات دبئی کا ماڈل بنا کے ان دونوں کی بریفنگ ہوئی۔دبئی پہنچانے کے لیے جعلی دستاویزات تیار ہوئیں اور متبادل ناموں سے ٹکٹ بک ہو گئے۔
کسی طرح ممبئی پولیس حکام کو سن گن مل گئی کہ وکی اور فرید بھارت پہنچ گئے ہیں اور کسی سینیر سیاستداں یا تاجر کو نشانہ بنانے والے ہیں۔ممبئی پولیس ان کی آمد کے اصل مقصد اور انٹیلی جینس بیورو کے منصوبے سے بے خبر تھی۔
چنانچہ ممبئی پولیس نے اپنے ذرایع سے دونوں کو ٹریس کر لیا۔پولیس میں داود ابراہیم کے کچھ ہمدرد افسروں نے بھی یہ خبر اس تک پہنچا دی۔
ممبئی پولیس کے ڈپٹی کمشنر دھنن جے کملاکر کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم دلی روانہ کی گئی اور جس ہوٹل میں ان دونوں کو ٹھہرایا گیا تھا وہاں پہنچ گئی۔اس وقت اجیت دوال دونوں مطلوبہ دہشت گردوں کو آپریشن داود کی آخری بریفنگ دے رہے تھے۔
چونکہ انٹیلی جینس بیورو سامنے نہیں آنا چاہتا تھا لہذا آئی بی کے اہل کار بمبئی پولیس کی ٹیم کو روکنے کے بجائے آئی بی کے اہل کار اجیت دوال سمیت وہاں سے چمپت ہو گئے تاکہ راز فاش نہ ہو جائے۔وکی اور فرید کو گرفتار کر کے ممبئی لایا گیا۔اور پھر یہ کہانی میڈیا لے اڑا۔
ایک صحافی کو سن گن مل گئی کہ دلی کے ہوٹل میں وکی اور فرید کی گرفتاری کے وقت اجیت دوال بھی وہیں تھے۔مگر اجیت دوال اس صحافی کے سامنے صاف مکر گئے۔ان کا کہنا تھا کہ جب یہ گرفتاری ہوئی تب وہ گھر پر تھے اور انھیں ٹی وی سے ہی اس گرفتاری کی خبر ملی۔
جون دو ہزار دس میں فرید تناشا ممبئی میں قتل ہو گیا۔وکی ملہوترا کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے پانچ برس قید کی سزا سنائی۔چھوٹے راجن کو دو ہزار پندرہ میں انڈونیشیا کے جزیرے بالی سے پکڑ کے بھارت لایا گیا۔اسے عمر قید کی سزا ہوئی۔اجیت دوال دو ہزار چودہ سے مودی سرکار کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں اور داود ابراہیم بھارت سے باہر ہے اور زندہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس