الہ آباد ہندوستان کا قدیم شہر دریائے جمنا اور گنگا کے سنگم پر واقع تھا۔ ہندوؤں کے نزدیک گنگا ایک مقدس دریا تھا جس میں نہانے کیلئے ہر سال ہزاروں زائرین آتے تھے۔ اِس کے علاوہ الہ آباد نہرو خاندان کا آبائی شہر بھی تھا۔ انڈین کانگریس میں شمولیت کے بعد موتی لال نہرو نے اپنی کوٹھی انند بھون ہندو قوم کیلئے وقف کر دی تھی۔ گاندھی جب کبھی الہ آباد آتے، تو اِسی عمارت میں قیام کرتے۔ قدرت نے بت کدے میں اذانِ حق کا اہتمام کر دیا تھا اور ظلمتِ شب میں صبح آرزو کا ظہور ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر محمد اقبال کے انگریزی خطبے سے برطانیہ کے دانش وروں اور حکمرانوں پر لرزہ طاری ہو گیا تھا کہ شمال مغربی ہندوستان میں مسلم ریاست کے قیام کا تصوّر اُن پر بجلی بن کے گرا تھا۔ مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی حالت الہ آباد میں ناگفتہ بہ تھی۔ عظیم قومی شاعر اکبر الہ آبادی کی وفات کے بعد وہاں کوئی قابلِ ذکر شخصیت نہیں تھی، لیکن لیگ کونسل کے ممبر حافظ غضنفر اللّٰہ اور اُن کے ساتھی اجلاس کے انتظامات کو آخری شکل دینے میں مصروف ہو گئے، مگر محمد حسین غیرفعال رہے اور وَقت پر اجلاس کا ایجنڈا بھی جاری نہیں کر سکے۔ علامہ اقبال کا الہ آباد رَیلوے اسٹیشن پر تاریخی استقبال ہوا۔ جلوس میں مسلم اور غیرمسلم شریک ہوئے جو عظیم شاعر زندہ باد کے علاوہ اَللّٰہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ الہ آباد یونیورسٹی اور اِسلامیہ کالج کے ہاسٹل خالی ہو گئے تھے، کیونکہ طلبہ جلوس میں پیش پیش تھے۔ اِس عدیم المثال جوش و خروش کے درمیان یہ خطرہ محسوس ہوا کہ جلسے کو سبوتاژ کرنے کے لیے مہاسبھا جتھے تیار کر چکی ہے، چنانچہ آخری وقت پر جلسے کا مقام تبدیل کیا گیا جو شہر کے اندر تھا اور اُس میں سو کے لگ بھگ شرکا ہی سما سکتے تھے۔29 دسمبر کو دِن کے گیارہ بجے سالانہ اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں شروع ہوا۔ زیادہ تر حاضرین شاعرِ مشرق سے اُن کا کلام سننے آئے تھے، البتہ ایسے اصحابِ نظر بھی موجود تھے جو اُن کے خطبۂ صدارت سے بہت متاثر ہوئے اور اُنہیں مستقبل کے راستے کشادہ ہوتے نظر آئے۔ خطبے کے اختتام پر علامہ اقبال نے فرمایا کہ مَیں آپ کو ایک حدیثِ مبارکہ سناتا ہوں جس پر عمل کرنے سے آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اِس پر خاموشی طاری ہو گئی۔ علامہ نے حدیث بیان کی کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اُس نے اللّٰہ کو پہچان لیا۔ حاضرین نے پُرجوش تالیوں میں علامہ کو رخصت کیا۔ وہ اَکبر الہ آبادی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے جس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ وہ سخت آزردہ ہوئے اور کہنے لگے کہ الہ آباد کے مکینو! تم نے اِس قدر عظیم شخص کی قبر کا کیا حال کر دیا ہے۔قدرتی طور پر مسلم حلقوں میں خطبہ الہ آباد کا زبردست خیرمقدم ہوا۔ کلکتہ سے راغب حسن، ایم سلیم اور فضل رسول آفریدی نے لکھا کہ ’’ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ لیگ کے اسٹیج سے یہ سب سے پہلی زندہ آواز ہے جس نے اِس قدر صفائی، جرأت اور حکمت و تدبر سے ہندوستان میں اسلام کے نصب العین پر بصیرت افروز بحث کی ہے اور اِس آواز نے باطل پرستوں اور طاغوتیوں میں سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ مخالف سے مخالف بھی خطبے کی معنویت، اخلاص اور بصیرت افروزی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔ ایسے خطبے کو لاکھوں کی تعداد میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔‘‘ خطبے کے حوالے سے لاہور کے روزنامہ ’انقلاب‘ اور لکھنؤ کے روزنامہ ’ہمدم‘ میں جو کچھ شائع ہوا، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اُس کا زبردست خیرمقدم ہوا اَور اُنہوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ وہ اَقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں۔روزنامہ ہمدم بھی غیرمعمولی جرأت اور بےباکی سے خطبۂ الہ آباد کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے ہندو قائدین کی بلبلاہٹ کا مذاق اڑاتا رہا۔ اُس نے لکھا کہ دراصل ہندوستان میں جمہوری اداروں کا اجرا؍1861ء سے شروع ہو چکا تھا اور ہندوؤں کے سر میں یہ سودا سما رہا تھا کہ جمہوری نظام کے تحت وہ آئندہ کے حکمران ہوں گے، چنانچہ وہ رَام رَاج کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ علامہ اقبال کے مسلم ریاست کے قیام کی ’خواہش‘ نے اُن کا خواب چکناچُور کر دیا ہے۔ اِس لیے وہ بھنا اُٹھے ہیں اور ایک بہت بڑے مفکر پر گالیوں کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہیں۔ لاہور سے شائع ہونے والے ایک اور معروف اخبار ’پرتاب‘ نے خطبہ الہ آباد پر جو اِداریہ لکھا، اُس کا عنوان تھا ’’شمالی مغربی ہندوستان کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ اُس میں علامہ اقبال کو جنونی، شرارتی، متعصب، زہریلا، تنگ نظر اور کمینے کے القابات سے نوازا گیا۔ہندو پریس کی طرح ہندو سیاست دان بھی خطبۂ الہ آباد پر بہت سیخ پا ہوئے۔ بنگالی سیاست دان راج پال نے اپنے ایک مضمون میں علامہ کو بہت جلی کٹی سنائیں۔ اُس نے لکھا کہ ’’سر محمد اقبال اور اُن کے ساتھی اُس زمانے کے خواب دیکھ رہے ہیں جب ہندوستان مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ اقبال چاہتے ہیں کہ اُن کے ہم منصب ایشیا اور ہندوستان پر پھر حکومت کریں، لیکن وہ اِس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ آج ہندوستان میں بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور وُہ لوگ بھی اِس قابل نہیں رہے کہ اب ہندوستان میں مغل اور پٹھان راج قائم کرنے میں مدد دَے سکیں۔‘‘یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جہاں متعصب ہندوؤں کی ایک بہت بڑی کھیپ خطبہ الہ آباد پر چیں بہ جبیں تھی، وہاں مٹھی بھر اعتدال پسند ہندوؤں نے اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ٹائمز آف انڈیا میں ’ہندو لبرل‘ کے قلمی نام سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں اُس نے علامہ کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’صرف ایک دلیل کی بنا پر اقبال کا یہ مطالبہ خاص ہمدردی کا مرقع بن جاتا ہے کہ اسلامی کلچر کی حفاظت اور ترقی کیلئے ایک ایسے خِطے کا قیام ضروری ہے جس میں مسلمان اکثریت میں ہوں۔‘‘ مضمون نگار نے اقبال کی پیش کردہ مسلم ریاست کی خواہش کو اُن صوبوں کے ہندوؤںکیلئےبھی مفید قرار دِیا۔خطبہ الہ آباد سے ظلمتِ شب میں صبح آزادی کا ظہور قابلِ دید تھا (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ