یہ 1929ء کی بات ہے افغانستان کے حکمران امیر امان اللہ خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور حبیب اللہ بچہ سقہ نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔علامہ اقبال افغانستان کے حالات پر بہت پریشان تھے کیونکہ اس زمانے میں برطانوی سامراج کے زیر تسلط ہندوستان کے آزادی پسندوں کی واحد پناہ گاہ افغانستان تھی۔ امیر امان اللہ خان کے ایک قریبی ساتھی جنرل نادر خان فرانس میں افغانستان کے سفیر تھے انہوں نے افغانستان کو بچہ سقہ کی لوٹ مار سے بچانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کے راستے سے واپس لوٹے۔ جب وہ لاہور پہنچے تو علامہ اقبال نے اپنی جمع پونجی ان کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس یہ دس ہزار روپے ہیں آپ اسے چندے کے طور پر قبول کریں اور اپنی مزاحمت کو منظم کرنے کیلئے استعمال کریں۔ نادر خان نے علامہ اقبال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال انہیں اس رقم کی ضرورت نہیں جب ضرورت پڑی تو یہ رقم منگوا لوں گا۔نادر خان لاہور سے پشاور اور وہاں سے وزیرستان پہنچے۔ علی خیل کے مقام پر انہوں نے اپنے ساتھیوں کوجمع کیا اور بچہ سقہ کے خلاف مزاحمت شروع کر دی ۔اس دوران نادر خان اور علامہ اقبال کی خفیہ خط وکتابت جاری رہی ایم اے حکیم، اللہ بخش یوسفی اور عبدالمجید سالک اس خفیہ خط وکتابت میں سہولت کاری کرتے تھے۔آخر کار نادر خان کو کامیابی حاصل ہوئی انہوں نے کابل فتح کر لیا اور نادر خان سے نادر شاہ بن گئے ۔پھر علامہ اقبال نے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کا سفر کیا اور کابل میں تحریک آزادی کے عظیم مجاہد حاجی صاحب ترنگزئیؒ سے ملاقات کی جنہیں برطانوی حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہوا تھا ۔اسی سفر میں علامہ اقبال نے غزنی میں حضرت علی ہجویریؒ کے والد عثمان ہجویریؒ کا مقبرہ تلاش کیا اور قندھار پہنچ کر احمد شاہ ابدالی کے مقبرے پر فاتحہ خوانی کی ۔1933ء میں نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا تو اس کا بیٹا ظاہر شاہ حکمران بن گیا۔ 1938ءمیں علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو ظاہر شاہ نے علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر ان کے مزار کیلئے سنگ مرمر اور سرخ پتھر کے علاوہ ایک خوبصورت کتبہ بھی بھجوایا جس پر اقبال کے فارسی اشعار کندہ کئے گئے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں ۔
آسیا یک پیکر آب وگل است
ملت افغاں درآں پیکر دل است
از فساد او فسادِ آسیا
در کشاد او کشادِ آسیا
تا دل آزاد است، آزاد است تن
درنہ کا ہے در رہ باد است تن
بقول اقبال اگر افغانستان میں فساد ہو گا تو پورے ایشیا میں فساد ہو گا اور اگر افغانستان میں خوشحالی آئے گی تو پورے ایشیا میں خوشحالی آئیگی۔ افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد حکمران اشرافیہ کی لڑائیوں اورچال بازیوں نے افغانستان اور پاکستان کے عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں لیکن دونوں اطراف کے لوگوں کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ وقت گزرنے کےساتھ ساتھ یہ کمزور ہونے کی بجائے مزید مضبوط ہوئے ۔ہمیں ماننا ہو گا کہ افغانستان اور پاکستان کے کئی حکمران ذاتی مفادات کیلئے ہمیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہے ۔جب سردار داؤد کی حکومت نے پاکستان میں تخریب کاری شروع کرائی تو ذوالفقار علی بھٹو نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی امداد شروع کر دی اور پھر جنرل ضیاء الحق نےتو جہاد افغانستان کے نام پر پاکستان کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگادیا ۔
جنرل پرویز مشرف آئے اور انہوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے نام پر امریکہ کو اپنے ملک میں فوجی اڈے دیئے جہاں سے افغانوں پر بمباری ہوتی تھی۔پاکستان نے بیس سال تک افغانستان کی تحریک مزاحمت کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا اور اربوں ڈالر کمائے ۔بیس سال میں یہ مزاحمت ختم نہ ہو سکی تو جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک انٹرنیشنل پاور پلیئر بننے کا شوق چرایا۔موصوف نے جنرل فیض کے ذریعے دوحہ مذاکرات شروع کئے اور پھر امریکہ نے افغان طالبان کےساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کےتحت امریکہ کو افغانستان سے نکلنا تھا اور طالبان نےبھی وعدہ کیاکہ وہ طاقت کے ذریعے کابل پر قبضہ کرنے کی بجائے ایک وسیع البنیاد نمائندہ حکومت کو اقتدار سپرد کریں گے۔ بدقسمتی سے دوحہ امن معاہدے پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ افغان طالبان نے طاقت کے زور پر کابل کو فتح کر لیا اور طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے طالبان کو راضی کرنے کیلئے بہت کچھ کیا لیکن ان دونوں صاحبان پر کوئی اعتبار نہیں کرتاتھا اور حالات اتنے بگڑے کہ آج پاکستان کی حکومت اعلان کر رہی ہے کہ یہاں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ اس رائے سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ جو پاکستان میں رہتا ہے اسے پاکستان کے قانون کا احترام کرنا چاہئے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مہاجر بن کر ہمارے پاس آئے اور پھر مالک بننے کی کوشش کرے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو یکم نومبر تک نہ نکالا جا سکا تو پھر کیا ہو گا؟ افغان باشندے پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے خلاف پورے ملک میں آپریشن شروع کرنا پڑے گا اور ایسی صورت میں سیکورٹی فورسز کم از کم دوتین ماہ کیلئے مصروف ہو جائیں گی۔ سیکورٹی فورسز اور حکومت اس آپریشن میں مصروف ہو گئی تو الیکشن کون کرائے گا؟
نگران حکومت کا اصل کام الیکشن کرانا ہے فی الحال نگرانوں کی طرف سے الیکشن کے سوا باقی سب کام کئے جا رہے ہیں۔ افغان باشندوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی ہے اور اس سلسلے میں کچھ جگہوں پر ایسے افغان باشندوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کےپاس قانونی دستاویزات موجود تھیں۔ نگران حکومت کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی ایسے افغان کے ساتھ زیادتی نہ ہو جس نے پاکستانی قانون نہیں توڑا۔ جو بھی کیا جائے صرف اور صرف پاکستان کے فائدے کیلئے کیا جائے۔ منشیات فروشوں اور اسمگلروں کو بالکل معاف نہ کیا جائے لیکن بے گناہ افغانوں کو جیلوں میں ٹھونس کر پاکستان کے دشمنوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔ یاد رکھیں کہ حکیم الامت علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا۔ ایشیا کے دل میں پاکستان نے اپنے لئے خود ہی نفرت بھر دی تو یہ پاکستان کے فائدے میں نہیں ہوگا پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے پر کام مت کریں اور بچہ سقہ مت بنیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ