کسی کے پاس کوئی روڈ میپ؟ : تحریر محمود شام


’’بڑے میاں صاحب آرہے ہیں۔

سب ٹھیک ہوجائے گا۔

دہشت گردی کا پہلے بھی خاتمہ کیا تھا، اب بھی کرینگے۔

پہلے بھی معیشت کو کنٹرول کیا تھا۔ اب بھی کرلیں گے۔‘‘

تخت لاہور سے یہ حوصلہ افزا بشارتیں سننے میں آرہی ہیں۔ لیکن کوئی جامع لائحہ عمل کسی طرف سے بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ن لیگ، دوسری سیاسی جماعتوں، ماہرین اقتصادیات، یونیورسٹیوں کی طرف سے آئندہ دس پندرہ برس کا کوئی حفاظتی منصوبہ ان ہفتوں میں سامنے آنا چاہئے۔ تب یقین ہوگا کہ ہم اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں۔سب کہہ رہے ہیں کہ اس وقت تاریخ کی بد ترین مہنگائی ہے۔ پیٹرول اتنا گراں کبھی نہیں ہوا تھا۔ قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی اتنی پستی میں کبھی نہیں گری تھی۔ اب اگر ڈالر حملہ کرتا ہے تو ریاست درمیان میں سے ہٹ جاتی ہے۔ جارح ڈالر کو عوام پر براہ راست حملے کی جگہ دے دی جاتی ہے۔اگر مہنگائی سرحد پار کررہی ہوتی ہے تو اسے روکنے کی بجائے اس کا رُخ بھی 23کروڑ کی طرف کردیا جاتا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو ریاست اس کے آگے سینہ سپر ہونے کی بجائے ننگے نہتے عوام کو اس کے سامنے کردیتی ہے۔ 22 کروڑ کی صبر و استقامت کو سلام۔

آج ملک کی بد حالی 1985 سے اب تک کی جماعتی، غیر جماعتی، سیاسی، فوجی، نگراں، منتخب حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان میں سے اکثر مرکزی کردار اب بھی زندہ ہیں۔ آزمائے کو آزمانا جہل کہا گیا ہے۔ لیکن ہم یہ تجربہ بار بار کرتے آرہے ہیں۔

ماضی کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ تاریخ پہلے سے ہی مختلف ادوار کے بارے میں فیصلے دے چکی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی ہے۔ اس کے تجزیے ہوچکے ہیں۔ اپریل 2022سے اگست 2023 تک 16ماہ میں 13بڑی اور چھوٹی جماعتوں، قومی اور علاقائی لیڈروں کی ذہانت صلاحیت اور خلوص نیت کا تجربہ بھی ہوچکا۔ تمام تر صلاحیتوں، تجربوں، مشاہدوں اور سارے مقتدر اداروں کی پوری کوشش بھرپور طاقت کے استعمال، میڈیا کی مصلحت کوشی ، عدالتوں سے ریکارڈ ناانصافیوں کے باوجود بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی پوری حمایت کے باوجود معیشت نہیں سنبھل سکی۔ روپیہ کہیں نہیں ٹھہر سکا۔ چھوٹے میاں کی وزارت عظمیٰ ان کروڑوں کو کوئی راحت نہیں پہنچاسکی۔ جن کی حمایت سے اب بڑے میاں چوتھی بار وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔

ملکی معیشت کا استحکام وقت کا اولیں تقاضا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک ایک ایک پاکستانی کی نگاہ اداروں، عدالتوں اور لیڈروں پر لگی ہوئی ہےکہ آئندہ دس پندرہ برس میں قومی سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے کون سے اقتصادی ماہرین ہیں جو حالات کا رُخ بدل دیں گے۔ غیرضروری حکومتی اخراجات کیسے کم ہوں گے۔ بند کارخانے پھر چل سکیں گے۔ غربت کی لکیر سے نیچے گئے۔7½ کروڑ لکیر سے اوپر آجائیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کی ہوس زر کی بیماری کا علاج ہوجائے گا۔ باہر کی املاک بیچ کے زرمبادلہ واپس لایا جائیگا۔ کیا ہمارا حکمراں طبقہ جھوٹ بولنا بند کردے گا۔

اب پاکستان کے حکمراں طبقوں،مقتدر اداروں، معاشی ماہرین سب کا امتحان ہے کہ وہ انتہائی پستی میں گری ریاست کو عظمت رفتہ واپس کیسے دلاتے ہیں۔ ارجنٹائن، برازیل، ملائشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ ایسی معاشی زبوں حالی سے واپس خوشحالی کی طرف کیسے آئے۔ کیا مہاتیر جیسی قیادت ہمارے پاس ہے۔ کیا ہمارا ازلی اتحادی امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ایک متوازن، مستحکم مقتدر ملک ہو۔ ہمارے خیال میں تو ہمارے عظیم دوست چین کے علاوہ کوئی بھی یہ نیت نہیں رکھتا کہ پاکستان اقتصادی طور پر ترقی کرے۔ عوام کی فی کس آمدنی بڑھے۔ اب آزمائش ہے 23روڑ کی قوت ارادی کی، مقتدر اسٹیبلشمنٹ کی، قومی سیاسی جماعتوں کی،مذہبی سیاسی پارٹیوں کی، یونیورسٹیوں کی، دینی مدرسوں کی، صنعتی و تجارتی تنظیموں کی، منصوبہ بندی کی صلاحیتوں کی، ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے۔ اپنے آپ کو سب سے زیادہ مظلوم ثابت کرنے اور خود کو عقل کل سمجھنے کی بجائے اس اجتماعی مایوسی سے باہر صرف اجتماعی فکر کے ذریعے نکلا جاسکتا ہے۔ یہ بد ترین معاشی، سماجی، سیاسی اور اخلاقی انحطاط حکمراں طبقوں اور مقتدر اداروں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ اپنی سابقہ پالیسیوں اور انداز حکمرانی کو ہی درست قرار دیتے ہیں۔ تو وہ بہت بڑے استدلالی مغالطے میں مبتلا ہیں۔ اور جو بھی ان کا ساتھ اس بنیاد پر دے رہا ہے وہ بھی غلط راستے پر ہے۔

مسلم لیگ(ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اورجی ڈی اے کی قیادتیں اس وقت آزاد ہیں۔ سب سے پہلے تو ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ ان کے پاس پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کا کیا روڈ میپ ہے۔ غیرملکی قرضے کیسے اتارے جائیں گے۔ عام آدمی کی آمدنی، اس کے اخراجات کے برابر کیسے ہوگی۔ معدنی وسائل کی برآمد کا طریق کار کیا ہوگا۔ بڑے میاں صاحب نے خود ساختہ جلا وطنی کے دوران معیشت پر کونسی تازہ ترین کتاب پڑھیں۔ کن عالمی معاشی ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔ کتنی ورکشاپوں میں شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی تجربہ گاہ پندرہ سال سے ہے۔ کیا سندھ کا ترقیاتی، اقتصادی، سماجی نمونہ آئندہ کیلئے رول ماڈل بن سکتا ہے۔ بلوچستان میں جو سیاسی تجربے کیے گئے، نئے نئے لیڈر تلاش کیے گئے، وہ بلوچستان میں محرومیاں دور کرنے کا کیا اقتصادی منصوبہ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے سروے آرہے ہیں لیکن ان کی تیاری بھی سامنے نہیں آرہی کہ وہ پاکستان کو اس اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ بد ترین معاشی صورت حال میں ہمارے ماہرین معیشت کبھی کہیں مل بیٹھے ہیں۔ ٹاک شوز میں چند منٹ کے جملوں سے تو معیشت کا بے لگام گھوڑا قابو میں نہیں آ سکتا۔ امریکی تھنک ٹینک ہر انتخابی سال کے دوران اندرونی اور بین الاقوامی امور کا جائزہ لے کر آئندہ چار سال کیا کرنا ہوگا کی ٹھوس تجاویز دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے تحقیقی ادارے تھنک ٹینک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا ان کی طرف سے آئندہ پانچ سال کیلئے کوئی پروگرام دیا گیا ہے۔ جذباتیت، موروثی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی غلامی اور کسی ایک کو مسیحا سمجھنے کی سوچ سے پاکستان اس بحران سے نہیں نکل سکے گا۔ چاروں صوبوں اور دو وحدتوں میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ ترانوں کی اگائی گئی فصلوں سے نہیں۔ 23کروڑ کی زرعی، صنعتی، ٹیکنالوجی، بینکاری کی ضروریات پوری کرنے سے ملک خوشحالی کے راستے پر آسکے گا۔ منزل تو ابھی بہت دور ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ