پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس کے چالان میں گناہ گار قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت نے چار اکتوبر سے مقدمے کا ٹرائل شروع کرنے کا بھی کہہ دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ توشہ خانہ کیس کے فیصلے سے بھی جلدی ہو جائے گا۔
اگر سب چیزیں ایسے ہی چلتی رہیں تو محتاط اندازے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں اس کیس میں بڑ ی سزا ہو سکتی ہے۔ عمر قید کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے کیونکہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ معزز عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔
اسی طرح نو مئی کے مقدمات کے حوالے سے دس مقدمات کے چالان بھی عدالتوں میں جمع ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کو ان دس مقدمات میں براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
خبر یہی ہے کہ نو مئی کے مقدمات کے ٹرائل بھی فاسٹ ٹریک پر چلیں گے اور اگر یہ واقعی فاسٹ ٹریک پر چلتے گئے تواکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں نو مئی کے مقدمات کے فیصلے بھی آنا شروع ہو جائیں گے۔یہ فیصلے کیسے ہوں گے، مقدمات کے شواہد اور انوسٹیگیشن تو یہی بتاتے ہیں کہ ملزمان خاصی مشکل میں ہوں گے۔
اگر منظر نامہ یہی ہے تو پھر مفاہمت کیا ہے؟ پھر محمد علی درانی، اسد قیصر اور عارف علوی کے ساتھ مل کر جو مفاہمت کر رہے تھے، وہ کہاں گم ہو گئی ہے؟ علی محمد خان جس مفاہمت کی بات کر رہے تھے، وہ کہاں ہے؟ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اس مفاہمت میں نو مئی کے ملزمان شامل نہیں ہیں۔
اسٹبلشمنٹ نے پہلے دن ہی واضح کر دیا تھا کہ نو مئی کے ملزمان پر مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ مفاہمتی گروپ پھر بھی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ ابتدائی طور پر تحریک انصاف کے ٹوئٹر ہینڈل سے اس مفاہمت کی تصدیق بھی کی گئی۔
یہ اعلان کیا گیا کہ تحریک انصاف کے وفد نے اسد قیصر کی قیادت میں محمد علی درانی سے ملاقات کی، جس میں اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کے خلاف سیاست نہ کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ بڑ ی پیش رفت تھی، اس سے بند دروازے کھل سکتے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوا ہے کہ مفاہمت کا یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی دہری حکمت عملی اس مفاہمت کے ٹوٹنے کا باعث بنی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں موجود تحریک انصاف کے حامی خاموش ہیں۔ لیکن اس میں بھی اس مفاہمتی مشن کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، بلکہ یہ ٹائیگرز قانون کے شکنجے میں آنے کے ڈر سے خاموش ہیں۔اب پاکستان میں رہتے ہوئے اداروں کے خلاف زہر اگلنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ قانون فورا حرکت میں آتا ہے، نرمی کی پالیسی ختم ہوگئی ہوئی ہے۔
مسئلہ بیرون ملک مقیم تحریک انصاف کے حامیوں کا ہے، وہاں سے جو گالم گلوچ جار ی ہے، اس کا تحریک انصاف کے اس مفاہمتی گروپ کے پاس کیا جواب ہے؟ سادہ سا اصول ہے کہ تحریک انصا ف دو چہروں کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ پاکستان کے اندر تو ان کے لیڈر مفاہمت کی باتیں کر کے سیاسی رعایتیں لے لیں اور پاکستان کے باہر سے گالم گلوچ جاری رکھیں۔ اس طرح مفاہمت نہیں چل سکتی۔ لہذا مفاہمت ختم کر دی گئی ہے۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ دہری پالیسی بھی جیل سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ہی تھی۔ ایک طرف اس مفاہمتی گروپ کو آگے کیا گیا تاکہ ملک کے اندر انتخابات میں جگہ بنانے کا موقع مل سکے۔ کسی حد تک یہ تاثر بن سکے کہ بند دروازے کھل گئے ہیں۔
اس لیے جو لوگ تحریک انصاف سے دور ہو گئے ہیں، ان کی واپسی کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ امیدواران کو تاثر دیا جائے کہ واپس آجائیں، ہمارے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑیں۔ امیدواروں کو تاثر دیا جائے کہ اسٹبلشمنٹ سے بات چیت ہو گئی ہے۔
اس لیے کوئی فکر کی بات نہیں ۔ اس وقت صورتحال یہی ہے کہ کوئی بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ لوگ کہتے ہیں آزاد لڑ لیں گے لیکن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر نہیں لڑیں گے۔ اس مفاہمت سے ان سب کی واپسی ممکن ہو رہی سکتی تھی۔ اسد قیصر اپنے ساتھیوں کے ساتھ الیکشن لڑنے والوں کا گروپ متحرک کر رہے تھے اور تاثر دے رہے تھے کہ مجھے قبولیت ہے میرے ساتھ آجا۔
دوسری طرف اس دوران بیرون ملک سے گولہ باری تیز کر دی گئی تھی۔ تحریک انصاف کے حامیوں نے اپنے لہجے زیادہ سخت کر دیے تھے۔ میں زیادہ نام نہیں لکھنا چاہتا لیکن شہزاد اکبر نے بھی ایک متنازعہ مضمون لکھا ہے اور بھی کئی نام حوالوں کے ساتھ لکھے جا سکتے ہیں جنھوں نے اس مفاہمت کے دوران اپنی گولہ باری شدید کی۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ ووٹر کو مزاحمت پر رکھنے اور اندر سے مفاہمت جاری رکھنے کا پلان تھا۔ لیکن اسٹبلشمنٹ کو یہ صورتحال قبول نہیں۔ ان کی رائے میں دہری حکمت عملی کے ساتھ مفاہمت بالکل نہیں ہو سکتی۔
میری معلومات کے تحت یہ مفاہمت کا کارڈ پٹ چکا ہے ، فی الحال اس کا کوئی مستقبل نہیں، سب کو جواب دے دیا گیا ہے۔ مجھے اب سمجھ نہیں آرہی کہ دہری حکمت عملی کا تحریک انصاف کو فائدہ ہوا یا نقصان۔ میری رائے میں باہر بیٹھے تحریک انصاف کے نادان دوستوں نے اپنے وی لاگز کی ریٹنگ بڑھانے اور مالی مفاد کی خاطر بہت بڑا نقصان کر دیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس