ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو مسائل اور اختلافات سیاستدان خود حل کرسکتے ہیں وہ بھی وقت کے آرمی چیف سے حل کروانا چاہتے ہیں اور یہ بات تینوں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ 2009 میں معزول چیف جسٹس کی بحالی ہو، 2014 میں عمران خان کا دھرنا ہو، یا مارچ 2022 میں خود ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ،کبھی جنرل کیانی سے درخواست تو کبھی جنرل راحیل شریف سے تو کبھی یہ سب باجوہ ڈاکٹرائن کا شکار۔ اب مولانا فضل الرحمان نے ایک شوشا پہلے معیشت پھر انتخاب چھوڑا ہے جس سے جنرل ضیا کے دور کا نعرہ پہلے احتساب پھر انتخاب کی یاد تازہ ہوگئی، جس کی وجہ سے اس ملک کو 11 سال آمریت کا سامنا کرنا پڑا۔
2008 میں ایک اچھے سیاسی سفر کا آغاز ہوا تھا گو کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اس وقت عمران خان اور قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ تھے ایک اتحاد میں مگر وہ اچانک جنرل مشرف کی زیر نگرانی عام انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے اور پھر دونوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ حکومت بنائی۔ پھر معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر اختلاف ہوا اور بات لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ تک آگئی اور 2009 میں جو کام سابق صدر آصف زرداری خود کرسکتے تھے وہ جنرل کیانی کے ذریعے کروایا گیا۔
2014 عمران خان کا دھرنا عروج پر تھا کہ ایک روز نوازشریف صاحب نے وزیراعظم ہاوس میں سینئر صحافیوں اور اینکرز کو دعوت دی اور پوچھا کہ مسئلہ کیسے حل کیا جائے اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا، میں نے کہا میاں صاحب، سامنے ڈی چوک میں ایک کنٹینر پر آپ کا سیاسی حریف ہی تو ہے چہل قدمی کرتے ہوئے جائیں اور بات کرکے مسئلہ حل کریں بات توجہ سے سنی مگر پھر ایک دن بیان میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے درخواست کی کہ عمران اور طاہرالقادری سے بات کریں ویسے تو 2013 میں چار حلقے کھول دیتے تو 126 دن کا دھرنا ہوتا ہی نہیں نہ ماڈل ٹاون میں لوگ مارے جاتے۔
2022 میں ISI کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے تبادلے پر پیدا ہونے والے تنازعے پر بات بگڑنی شروع ہوئی تو عمران خان صاحب کو پورا یقین تھا کہ 8مارچ کو پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوجائے گی کیونکہ باجوہ صاحب بھی ان کو یقین دلا رہے تھے اور فیض صاحب بھی لہذا انہوں نے کوشش ہی نہیں کی کہ براہ راست پی ڈی ایم سے بات کرتے، وہ 8 سے 27مارچ تک اپنی جماعت اور اتحادیوں کو یقین دلاتے رہے کہ معاملات کنٹرول میں ہیں۔ ویسے تو تاریخی طور پر خود ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی بے دخلی کی کہانیاں بھی اس سے مختلف نہیں مگر ان دونوں نے وقت آنے پر معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش تو کی تھی۔
آج سے ساڑھے تین سال پہلے باجوہ صاحب اور خان صاحب کی مرضی سے 2020 میں لاہور سے لندن جانے والے تین بار کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ سیاست میں اسپیس خالی نہیں چھوڑی جاتی انہوں نے اپنا ہوم گراونڈ لاہور سے لارڈز منتقل کیا تو خان صاحب ،جو پنجاب میں اپنا سیاسی قبلہ درست ہی نہیں کر پارہے تھے، کو موقع مل گیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ خان صاحب کیلئے جو کام شریف اور زرداری نہ کرپائے وہ ان کے سب سے پسندیدہ کردار وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے کر دکھایا ،آج خان جیل میں ہیں اور بزدار مزے کررہے ہیں۔
اب تقریبا 17 ماہ بعدمیاں صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی شہبازشریف اور پی ڈی ایم حکومت کا بوجھ اٹھانا ہے اور سامنے ایک تگڑا حریف اٹک جیل میں ہونے کے باوجود تمام تر مقدمات کے باوجود خود گیلپ سروے کے مطابق مقبولیت میں ان سے خاصہ آگے ہے۔ ویسے تو اس وقت میاں صاحب بھی نااہل ہیں اور عمران بھی۔ دونوں کو سزا کا بھی سامنا ہے۔ اب خان صاحب کو تو پتا چل گیا کہ ان کا وسیم اکرم پلس ان کے زوال کا باعث بنا میاں صاحب کو شاید 21اکتوبر کو اپنے پرانے ہوم گراونڈ پر کھیلنے کے بعد پتا چل جائے مگر وہ کھیل سیاسی حریف کے بغیر کھیلنے کے خواہش مند ہیں۔ اگر عمران کو ہٹا کر الیکشن ہوجاتے تو شاید میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) اس مشکل میں نہ ہوتی، وزارت اعلی پنجاب کے منصب پر رہنے والے مسٹر اسپیڈ دراصل میاں صاحب کے عثمان بزدار ثابت ہوئے جس کی وجہ سے لوگ اصل بزدار کو بھول گئے۔ رہی سہی کسرخود میاں صاحب نے پوری کردی جب انہوں نے جناب مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹاکر اسحاق ڈار کو لگانے کا مشورہ دیا جس پر شہبازشریف اپنے تحفظات کے باوجود انکار نہ کرسکے۔ ڈار صاحب چھوٹے میاں صاحب کیلئے دراصل بزدار پلس ثابت ہوئے۔
اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ سیاستدان آہستہ آہستہ اپنا اسپیس دوسرے کے حوالے کرتے جارہے ہیں اور خود ایک دوسرے سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں کبھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاکر تو کبھی جمہوریت بہترین انتقام ہے کہہ کر۔
اچھا ہوا میاں صاحب 12اکتوبر کو برسی کے موقع پر نہیں آرہے جب انہیں دوسری بار نکالا گیا تھا۔ وہ جب یہاں سے گئے تھے تو ان کے پلیٹ لیٹس خاصے گرگئے تھے مگر ان ساڑھے تین سالوں میں خاص طور پر شہباز صاحب کی حکومت میں اور اسحاق ڈار صاحب کے کارناموں کی وجہ سے خود مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی سیاست کی وجہ سے سیاسی پلیٹ لیٹس اس حد تک گرگئے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان پہلے معیشت پھر انتخاب کا نعرہ لگارہے ہیں ،اب ایسے میں میاں صاحب واپس بھی آئیں گے یا انتظار کریں گے۔
بس دیکھیں اگر آپ 21اکتوبر کو انشااللہ واپس آتے ہیں تو خیال کیجئے گا کہ اگر آپ کے دائیں اور بائیں آپ کے بزدار یا بزدار پلس کھڑے ہوئے نظر آئے تو لوگوں کو 16 ماہ یاد آجائیں گے باقی فیصلہ آپ کا ہے۔
جب سیاستدان خود ہی قبولیت کو مقبولیت کا پیمانہ بنالے اور لیول پلینگ فیلڈ صرف اپنے لئے مانگے تو اس سے بڑا انتقام جمہوریت کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے پھر کیسا ووٹ اور کیسی ووٹ کی عزت۔ جمہوریت کو عزت دو مقبولیت کو قبولیت ہی جمہوری راستہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ