پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی : تحریر ڈاکٹر صغری صدف


بچپن میں ٹی وی پر یہ اشتہار دن میں کئی بار دیکھتے ہوئے پولیس کو ایک ایسے مددگار کے روپ میں سمجھتے تھے جس کے پاس کوئی جادوئی چھڑی ہوتی ہے جس سے وہ جرم کی سرکوبی اور مظلوم کی مدد کو فورا پہنچ جاتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اشتہار بھی بدلے، ترجیحات بھی تبدیل ہوئیں اور تصورات بھی۔ خصوصا دوستی کے تصور کو شدید ٹھیس پہنچی۔پولیس کی وردی پر مددگار کی بجائے خوف کے سائے نمایاں ہوتے رہے۔کچھ تلخ واقعات اور نامہربان رویوں کی وجہ سے دوریاں بڑھتی گئیں، رابطے مفقود ہوتے گئے اور پھر شہریوں اور پولیس کے درمیان بداعتمادی کی پختہ دیوار حائل ہو گئی۔ چھوٹے چھوٹے وہم اور شکوے شکایات، شکوہ وشبہات کے پہاڑ بنتے گئے۔ کئی مہربان افسران نے کوشش کی، وقتی مرہم بھی فراہم کیا مگر بیماری کی جڑ تلف نہ ہو سکی۔جدید دنیا میں سائنسی بنیادوں پر ہر محکمہ جدید تکنیک کے بل بوتے پر بیماری کو جڑ سے ختم کر سکتا ہے۔ صرف ہمت، عزم اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جاری کوششوں کو حتمی شکل میں ڈھالنا ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عثمان انور آئی جی پنجاب نے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کو خدمت خلق کے جذبے سے توانا کر کے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔انھوں نے تھانہ کلچر میں عملی طور پر ایسی تبدیلیوں کا آغاز کیا ہے جن سے پولیس کا محکمہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح مددگار کے روپ میں سامنے آئے گا۔ چاق وچوبند اورپر اعتماد خواتین افسروں کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ صوفی رنگ میں رنگے عمدہ انسان اور منفرد لکھاری کیپٹن لیاقت ملک کی پولیس میں موجودگی باعث نعمت ہے ۔آئی جی پنجاب کا پرعزم لہجہ مستقبل کی بشارتوں کا امین تھا۔ سب سے اہم نقطہ یہ تھا کہ دو لاکھ کے قریب پولیس 14کروڑ آبادی والیصوبے کے ہر مسئلے کو تنہا نہیں سلجھا سکتی اس کیلئے عوام اور پولیس کے درمیان رابطہ اور واسطہ ضروری ہے۔پولیس سڑک پر غلطی کرنے والے کا تعاقب تو کر سکتی ہے مگر گلی،محلوں اور کالونیوں میں کون کس خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اس بارے میں وہاں کی کمیونٹی ہی آگاہ کر سکتی ہے۔ماضی میں شکایت

کرنے والا مجرموں کے ظلم کا نشانہ بنتا رہا جس کے باعث لوگوں نے اپنے کام سے کام رکھنے کی پالیسی اپنا لی اور مجرم دندنانے لگے۔ یقینا آج کی پولیس بہت مختلف اور کمٹڈ ہے۔اس لئے اپنی اور اپنے ملک کی سلامتی کیلئے پولیس سے تعاون شہری کا اخلاقی فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔اگرچہ پولیس کے سیاسی کردار سمیت آج بھی بہت سی شکایات موجود ہیں مگر اس میں دو رائے نہیں کہ سب سے زیادہ قربانیاں دینے، مشکلات برداشت کرنے اور کوئی کریڈٹ حاصل نہ کر پانے والے لوگ بھی اسی محکمے سے متعلق ہیں جو جدید اسلحے سے لیس مجرموں کو روکنے سے نہیں ہچکچاتے۔ معاشرتی اصلاح میں پولیس کا کردار کتنا اہم ہے اگر چند دن پولیس اپنا کام نہ کرے تو نہ صرف سڑکوں پر چلنا دشوار ہو جائے، بلکہ قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ افراد شہریوں کی زندگی اجیرن کر دیں۔اگر ہم سکون سے سوتے اور گھروں میں حفاظت کے تصور سے رہتے ہیں تو پولیس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ ان کی معاونت ہے۔ صرف عدالت میں گواہی سے کام نہیں چلے گا اب جرم کے پنپنے کی خبر گیری بھی کرنی ہوگی۔ اپنے عزیز وطن کو ظاہر اور چھپے ہوئے دشمن کے وار سے نجات دلانے کیلئے ہر فرد کو سپاہی کا کردار ادا کرنا ہے۔ آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ محتاط بھی رہنا ہے اور چوکس بھی۔آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ چوبیس گھنٹے متحرک محکمے میں کام کے اوقات بھی مقرر کئے جائیں۔ فارغ بیٹھ کر تنخواہ لینے والوں کو آٹھ گھنٹے جبکہ ہر وقت آزمائش کا سامنا کرنے والوں کی چوبیس گھنٹے ڈیوٹی نہ انصاف کے زمرے میں آتی ہے نہ اس سے کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ تھانوں میں آٹھ گھنٹے کی شفٹ ہونی چاہئے۔جن میں سپاہی سے ایس ایس پی تک سب اپنے دورانیے کی ذمہ داری لیں۔ ان شااللہ حرکت بھی ہوگی اور برکت بھی۔ آئیے ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنا کردار نبھانے کا آغاز کریں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ معاشرے کو شر سے نجات دلانے کا فرض صرف پولیس کا نہیں۔ ہم سب کواپنی اپنی سطح پر خیر کو اجاگر اور شر کو کم کرنے میں کردار ادا کرنا ہے۔جب انسان خدمت خلق کی عظمت اور اس کے نتیجے میں ملنے والی راحت کو جان لیتا ہے تو کوئی طاقت اسے اپنے مقصد سے باز نہیں رکھ سکتی۔ڈاکٹر عثمان انور مجھے ایسے ہی فرد لگے۔ رب کرے ہمارے سب افسران اسی جوش و جذبے سے ہم کنار ہو کر ملک کو پرامن اور معاشی طور پر خوشحال بنائیں تاکہ کوئی اسے چھوڑ کر جانے پر مجبور نہ ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ