آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر تبادلۂ خیال کا دن ۔ وہ اسکول، کالج، یونیورسٹی میں کیا پڑھ رہے ہیں۔ اپنے اپنے دفاتر میں کیا سوچ رہے ہیں۔ ملک کے، دنیا کے حالات دیکھ کر ان کے ذہنوں میں کیا کیا سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے ملک کی معاشی حالت زار پر ان کی فکرمندی کیا ہے۔ کیا وہ پاکستان سے باہر جانا چاہ رہے ہیں۔ یا وہ اس عظیم مملکت کی عظمت رفتہ واپس لانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ اس طرح آج نماز عصر کے بعد اپنے ہمسایوں محلّے داروں سے اپنی مسجد کے صحن میں ملیں۔ وہ اس مملکت خدا داد کے بارے میں کیا درد مندی رکھتے ہیں۔ کیا وہ بھی کسی سفارت خانے کے باہر ویزے کی قطار میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں یا وہ قائداعظم کی قیادت میں ایک طویل جدوجہد اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں ملنے والے اس حسین خطّے کی وہ شان واپس لانا چاہتے ہیں، جب ہم سعودی عرب کی بھی مدد کرتے تھے،جب ہم جاپان اور جرمنی کو بھی قرضے دیتے تھے۔ آج کی اربوں روپے کی مقروض پی آئی اے، جب خلیجی ممالک کی فضائی کمپنیوں کو میدان میں کامیابی سے اتارتی تھی۔ جب ہماری ریلوے کی مغربی ممالک بھی تعریف کرتے تھے، جب ہماری اسٹیل ملز کو امریکہ رشک اور حسد کے ملے جلے جذبات سے دیکھتا تھا۔ جب ہمارے جفاکش نوجوان انگلستان، جرمنی، اسپین، دبئی، سعودی عرب، لیبیا، کویت کی تعمیر میں مصروف ہوتے تھے۔
میرا وجدان مجھے بشارت دے رہا ہے کہ وہ فیصلہ کن لمحہ آگیا ہے۔ جب خلق خدا راج کرنے کو تیار ہے۔ ہم خیرپور میں دیکھ رہے ہیں۔ کندھ کوٹ میں ملاحظہ کر رہے ہیں۔ لاہور کی گلیاں گواہی دے رہی ہیں۔ اٹک جیل کی سلاخوں سے جذبات باہر آ رہے ہیں۔ اب زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے۔ پرانی سیاست گری خوار ہے۔ وڈیرے، چوہدری، جاگیردار، تمندار، سردار، سرمایہ دار، لینڈ کروزروں، ڈالوں، ویگوں اور ساتھ چلتے مسلح گارڈوں کے باوجود نعرے لگ جاتے ہیں۔ ’’چور، چور‘‘۔ کیا عوام بیدار ہو گئے ہیں۔ طاقت وروں کا خوف جاتا رہا ہے۔
یہی گھڑی ہے جب ہم اس مملکت خداداد پاکستان کی گم شدہ عظمت واپس لا سکتے ہیں۔ اس کے کھیتوں کی زرخیزی لوٹا سکتے ہیں۔ اگر استحصالی حکمراں طبقوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ ان 22 کروڑ کو ہمیشہ بے کس اور محتاج رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو ان کی یہ خام خیالی قدم قدم باطل ثابت ہو رہی ہے۔ 22 کروڑ کے دل میں یہ احساس جاگ اٹھا ہے کہ اس ملک کے اصل مالک وہ ہیں۔ وہ نہیں جو ملکی خزانے کی لوٹ مار کر کے مغربی اور خلیجی ملکوں میں اپنی کمین گاہوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ صدیوں سے ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے والے، بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر میں صبح آزادیٔ کامل کیلئے جدو جہد کرنے والے اپنے شاندار، خود مختار ماضی میں جھانک رہے ہیں۔ میر جعفروں، میر صادقوں، عریبیا کے لارنسوں، روس، امریکہ، برطانیہ کے پروردوں کو بے نقاب دیکھ رہے ہیں۔ کس کو اتنے مربعے۔ جاگیریں کیوں ملیں۔ آج بھی وہ اپنے غیرملکی سرپرستوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے مزید املاک مزید اختیارات حاصل کر رہے ہیں۔ اب واہگہ سے گوادر تک غریب، محنت کش مگر روشن ضمیر، جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے ملک کے، دوسرے ملکوں کے حقیقی حالات سے آگاہ رہتے ہیں۔
ان بے نواؤں کو۔ بے بہروں کو اس انٹرنیٹ کے راستے یہ بھی معلوم ہے کہ اس ملک کے پہاڑوں، ریگ زاروں میں کتنا سونا ہے کتنا تانبا ہے، دوسری قیمتی دھاتیں کتنی ہیں، تیل کتنا ہے،گیس کتنی ہے، یورینیم کی تعداد کیا ہے، قیمتی پتھر کتنے ہیں۔
اب جمہور با خبر ہیں۔ کچھ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اب زندہ ضمیر پاکستانیوں کے ذہنوں پر یہ دُھن سوار ہے کہ ہمیں اپنی درسگاہوں کامعیار واپس لانا ہے۔ اپنی علم کی میراث کو پھر نوجوانوں تک پہنچانا ہے۔ دینی مدارس ہمارے علم کے سر چشمے، انہیں پھر بصیرت کے مراکز بنانا ہے۔ اپنی ریاست کی عظمت اپنے اداروں کی شوکت کو بحال کرنا ہے۔ اپنے شعر و ادب کی عظیم روایات کو از سر نو زندہ کرنا ہے۔ نوجوانوں کو اقبال کی آہ سحر دینا ہے۔ صحافت میں مولانا ظفر علی خان،مولانا عبدالمجید سالک، شورش کاشمیری، میر خلیل الرحمن، آئی اے رحمن،، ارد شیر کاؤس جی کی تحریر کی کاٹ تیز کرنا ہے۔
میں نہیں آپ بھی ارد گرد دیکھتے ہوںگے۔ سوشل میڈیا سے بھی بچوں،بزرگوں، ماؤں بہنوں، مزدوروں، محنت کشوں اور بے روزگاروں کی آنکھوں کی بے قراری آپ تک پہنچتی ہوگی۔ لوگ جاگ چکے ہیں، میدان بھی بیدار ہیں، پہاڑ بھی آنکھیں کھول چکے ہیں، وادیاں بھی بے تاب ہیں۔ ایک ایک ہم وطن اپنے اس عظیم وطن کی جغرافیائی حیثیت کی اہمیت جان چکا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے یہ انتہائی حساس محل وقوع اس لئے عطا نہیں کیا کہ ہم استعماری طاقتوں کے گماشتے بن کر رہ جائیں۔ ہم مودی کی ہندوتوا سے خوف زدہ ہوجائیں۔ بانیان پاکستان نے مسلمانوں کیلئےیہ الگ سر زمین اس لئے حاصل کی تھی کہ یہاں کلمہ گو اپنے دینی شعائر بھی ذمہ داری سے ادا کریں۔ اقتصادی طور پر بھی یہ ایک قابل عمل وحدت ہو۔ یہاں قدرتی معدنی وسائل ہیں۔ زرخیز اراضی ہیں، گنگناتی نہریں ہیں۔ آس پاس کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کرنا ہے۔ اس وقت ہم اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ کیونکہ ہماری قیادتیں مردہ ضمیر رکھتی ہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر فوقیت دیتی ہیں۔
انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ خلق خدا کو اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔ عوام قوت کا سر چشمہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، اقتصادی شعور رکھتے ہیں۔ اب وہ اس موڈ میں ہیں کہ وطن پرست قیادتوں کو ہار پہنائیں گے ملک کو اس حالت زار تک پہنچانے والوں کا راستہ روکیں گے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ تاریخ ایسے سنہری مواقع بار بار نہیں دیتی۔ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں۔ اب وہ پاکستان کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ ملک کو وہ مقام دلوانا چاہتے ہیں جس کیلئے لاکھوں انسانوں نے قربانیاں دی تھیں۔ پھر بعد میں عوامی راج کے حصول کیلئے بھی جانیں نثار کرتے آرہے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کے کارکن یہ چاہتے ہیں کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ سارے ادارے اپنا اپنا کام کریں۔ کوئی کسی دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کرے۔ سب محب وطن ہیں۔ کوئی عقل کُل نہیں ہے۔ اب آنے والا الیکشن 2023 میں ہو یا 2024 کے آغاز میں۔ یہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنا دے۔ مافیاز کی جڑیں اکھاڑ دے۔ جاگیرداروں، سرمایہ، داروں، سرداروں کو الوداع کہہ دے۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے!
بشکریہ روزنامہ جنگ