حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے شکوہ ،جواب شکوہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سےفرما رہا ہے :
کی محمد ؐسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اب 1445ھ میں لوح و قلم تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ جہان بھی امت محمدیؐ کا نہیں ہے۔ مسلمان ریاستیں غیر مسلم طاقتوں کی طفیلی بنی ہوئی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں۔ آئیے ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اپنے رہبر اپنے ہادیؐ۔ اپنے ملجاؐ۔ اپنے ماویٰ ؐسے۔ پیغمبر آخر الزماںؐ سے وفا کررہے ہیں۔ کیا ہم وفا کا وسیع تر مفہوم سمجھتے ہیں۔ کیا ہم وفا کی حدود و قیود سے با خبر ہیں۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ وفا کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔ شہر شہر بازار بازار سبز روشنیاں۔ قمقموں کی جھالریں۔ گلیاں۔ شاہراہیں۔ مکانات ہری روشنیوں سے آراستہ ۔ بچّے بزرگ مائیں بہنیں۔ سب کی آنکھوں میں ایک چمک ۔ سب کی پیشانیاں تمتمارہی ہیں۔ سب کی زبانوں پر’ درود اس پر سلام اس پر‘
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر موجودات، فخر نوع انسانی
سبحان اللّٰہ۔ حفیظ جالندھری شاہنامۂ اسلام لکھ کر محمدؐ سے وفا کرگئے۔ یقیناًجنت کے اعلیٰ باغات میں مقیم ہوں گے۔
آج جب عالم اسلام پر نظر ڈالتے ہیں ۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔ یا سنکیانگ سے لے کر بوسنیا تک۔ یا پوری دنیا میں جہاں جہاں محبوب سبحانی کے پیروکار رہائش پذیر ہیں۔ کیا وہ خاتم النبینؐ سے وفا کررہے ہیں۔ حضور اکرمؐ کی ریاست مدینہ کا ذکر بہت ہوتا ہے مگر یہ ریاست تو خود اب مدینتہ المنورہ میں بھی نہیں ہے۔
کفر تو ملت واحد ہے منظم بھی ہے
ہوں مسلمان بھی اک ساتھ مدینے والے
کافر متحد ہیں اورمسلمانوں کے خلاف منظّم بھی ہیں۔ نائن الیون کے بعد تو ان کا عملی سیاسی فوجی اتحاد بن گیا تھا۔ اس میں کچھ مسلمان ممالک بھی شریک ہوگئے۔ پاکستان کے پڑوس افغانستان میںامریکی یورپی ایشیائی غیر مسلم قوتوں نے کس طرح مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانےکیلئےجدید ترین اسلحہ استعمال کیا۔ عراق میں کس طرح خون مسلم ارزاں رہا۔ لیبیا میں کلمہ گوؤں کا کیا حشر کیا گیا۔ صومالیہ میں کیا نہیں ہوا۔ مگر مسلمان ممالک ایک دوسرے پر ہی الزامات عائد کرتے رہے۔ کشمیر میں کفر مسلمانوں پر 75 سال سے حملہ آور ہے۔ فلسطین میں یہودیوں نے مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ سارے مسلمان ملک خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اب تو مسلمان ملکوں کی طرف سے 1948سے فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل عرصۂ حیات تنگ کرنے والے اسرائیل سے سفارتی، معاشی تعلقات قائم کئےجارہے ہیں۔ کوئی مسلمان سربراہ یا ان مسلم ملکوں کے دانشور،پروفیسر، سیاستدان اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ سے سوالات کرتے ہیں کہ کیا ہم اپنے محسنؐ، اپنے رہبرؐ سے وفا کررہے ہیں۔ کیا واقعی سعودی عرب، پاکستان، عراق، اردن، ترکیہ، تیونس، انڈونیشیا، مصر، ملائشیا، بنگلہ دیش، نائیجیریا، مراکش، آذر بائیجان، الجزائر، بحرین، سوڈان، قطر، شام، کویت، موریطانیہ، متحدہ عرب امارات، بوسنیا، یمن، مسقط، ایران، مالدیپ، افغانستان، نائجریا، تاجکستان، فلسطین، جبوتی، سینگال، گمبیا، مالی، کوسووو، ترکمانستان، ایتھوپیا، ازبکستان کے حکمراں محسن انسانیتؐ، دنیا میں ایک سماجی انقلاب برپا کرنے والے، قیصر و کسریٰ کو سرنگوں کرنے والے فاتح سے، انسان کو سر بلندی دینے والے سے وفا کر رہے ہیں۔ عرب و عجم کو اپنی عظمت دلانے والے کے اسوۂ حسنہ کی تقلید کر رہے ہیں۔
ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمراں، ہمارے ادارے، ہمارا میڈیا، ہمارا بازار، ہمارے دکاندار اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا ہم صحیح ماپتے ہیں۔ کیا ہم ٹھیک تولتے ہیں۔ کیا ہم اپنے ہم وطنوں، ہم مذہبوں کو دھوکا دیتے وقت سوچتے ہیں کہ ہم اپنے نبیؐ اپنے ہادی سے وفا کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے جاگیردار، ہمارے سردار، ہمارے اعلیٰ افسران، ہمارے ٹھیکیدار، ہمارے مافیاز وسائل پرقبضہ کرتے وقت۔ اپنے غریبوں کی اکثریت پر زندگی کا عرصہ تنگ کرتے وقت۔ ان کو تشدد کا نشانہ بناتے وقت کیا ہمارے پولیس افسر اور دوسرے اہلکار اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کو عقوبت خانوں میں کسی جرم کسی گناہ کے بغیر مہینوں حبس بے جا میں رکھتے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی خیال کرتے ہیں کہ کیا ہمارے پیغمبرؐ نے یہی درس دیا تھا۔آج کل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے۔ ہمارے نگراں وزیراعظم بھی اس سے خطاب کرکے آئے ہیں۔ دیگر مسلم ممالک کے سربراہان بھی تقریریں کررہے ہیں۔ کیا آمنہ کے لالؐ سے وفا کا تقاصا یہ نہیں ہے۔ کیا اپنے کلمہ گو بھائیوں کی ترقی خوشحالی اور زندگی آسان بنانے کیلئےیہ ضروری نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے اس سالانہ اجلاس سے پہلے او آئی سی۔ اسلامی ممالک کی تنظیم ہر سال اپنا عام اجلاس بلائے۔ معیشت، ٹیکنالوجی، سفارت، صحت، تجارت، تعلیم کے حوالے سے تمام معاملات پر غور کیا جائے۔ مسلمان ممالک اپنے معدنی خزانوں اپنے محل وقوع۔ اپنی جغرافیائی حیثیت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے مشترکہ پالیسی اختیار کریں۔ کوئی متفقہ سیاسی سماجی لائحہ عمل بنائیں۔ پھر اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں تمام مسلمان ملک ایک موقف اختیار کریں۔ کیا مسلمان ملکوں کو ایک دوسرے کی مالی اور اقتصادی امداد کیلئے اپنی آئی ایم ایف۔ اپنا عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے نہیں بنانے چاہئیں۔
نئی ٹیکنالوجی ہر روز نئے آلات ،نئے ہتھیار ایجاد کررہی ہے۔ نئے رجحانات کی طرح ڈال رہی ہے۔ مسلم ملکوں کے پاس سرمائے اور وسائل کی کمی نہیں ہے۔ کسی مسلم ریاست نے غریب اسلامی ملکوں کے ذہین نوجوانوں کی مفت تربیت کا اہتمام کیا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنی بڑی بڑی صنعتی تجارتی کمپنیاں ہیں۔ ان میں کتنی مسلمانوں کی ہیں۔ اسلامی ریاستوں کی کتنی یونیورسٹیاں اعلیٰ معیاری تعلیمی اداروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ کتنے اسلامی ملک کشمیریوں کی مکمل آزادی اور فلسطینیوں کی با اختیار ریاست کے لئے سیاسی، مالی اورفوجی مدد کر رہے ہیں۔ تاریخ بار بار گواہی دیتی ہے کہ مسلمان امریکی، برطانوی استعمار کے گماشتے بن کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ حکومتوں کے تختے الٹتے ہیں۔ اپنے ذہین لیڈروں کو سزائے موت دیتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ علما نے مذہب کو انسانی خوشحالی کی بجائے جبر کی علامت بنا دیا ہے۔ اسلام کے نام پر گدیاں ہیں، خانقاہیں ہیں۔ جہاں خاندان دولت کا ارتکاز کر رہے ہیں۔ محمدؐ سے وفا یہ ہے کہ امت محمدیہ کے ہر فرد کو روزگار نظریات، عزت اور وقار کا تحفظ حاصل ہو۔ ان کا علاج معالجہ معیاری اور سستا ہو۔ کسی بھی کلمہ گو کو لاوارث نہ چھوڑا جائے۔ ملوکیت نہیں۔ مشاورت کا اہتمام ہو اور سب مل کر پورے عالم اسلام میں صبح آزادیٔ کامل کے طلوع کو ممکن بنائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ