تاریخ پر تاریخ کا کلچر … تحریر : مزمل سہروردی


چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل کی جانب سے التوا کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب کسی کو بھی التوا نہیں ملے گا۔

انھوں نے کہا ہے کہ بہت سارے کیسز پڑے ہیں، اس لیے یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ اب تاریخ دی جائے گی۔ ایک تاریخ پر نوٹس ہوںگے اور اگلی تاریخ پر فیصلہ ہوگا۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ سب کے لیے پیغام ہے۔

یہ ایک اچھی بات ہے کہ تاریخ پر تاریخ کے کلچر نے پاکستان کے عدالتی نظام کو مفلوج کیا ہوا ہے۔ عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ داد ا کیس کرتا ہے اور پوتے کو بھی فیصلہ مل جائے تو بڑے نصیب کی بات ہے۔ عدالتوں میں سالہا سال مقدمات زیر التو رہتے ہیں۔
کسی کو کوئی انصاف نہیں ملتا۔ لوگ عدالتوں میں خوار ہوتے ہیں۔ اس نظام نے عام آدمی کا نظام انصاف پر اعتماد تقریبا ختم ہو گیا ہے۔

یہ درست ہے کہ نظام انصاف ا چھا ہو یا برا اس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب عدالتوں سے انصاف نہ ملے تو لوگ متبادل بھی ڈھونڈتے ہیں۔ لوگ خود ہی انصاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایسا پاکستان میں ہو رہا ہے۔ یہاں متوازی عدالتی نظام موجود ہے۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ عدالت کے باہر ہی کسی نہ کسی طرح معاملہ طے کر لیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے مقدمات میں تاریخ نہ دینے کے اعلان کے بعد ملک کے عدالتی نظام میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

میں مانتا ہوں کہ اگر سپریم کورٹ کے باقی ججز نے چیف جسٹس کے اس حکم کو مانا تو کم از کم سپریم کورٹ کی حد تک ایک اچھی تبدیلی آجائے گی۔ سپریم کورٹ میں ایک اندازے کے مطابق 57ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔

جب کہ سپریم کورٹ میں اس وقت صرف پندرہ جج ہیں۔ اس لیے صرف پندرہ ججز سے یہ توقع رکھنا کہ وہ 57ہزار مقدمات کا فیصلہ فوری کردیں گے تو ممکن نہیں۔ لیکن تاریخ پر تاریخ کے کلچر کی حوصلہ شکنی سے بوجھ یقینا کم ہوگا۔ بہر حال یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ روزانہ نئے مقدمات بھی دائر ہو رہے ہیں۔ اس لیے زیر التوا مقدمات کی تعداد کم کرنا یقینا ایک چیلنج ہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ میں تقریبا پندرہ پندرہ سال مقدمات زیر التوا ہیں، ان کی باری ہی نہیں آرہی۔ بعد میں دائر ہونے والے مقدمات پہلے لگا دیے جاتے ہیں۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ مقدمات لگانے کے لیے سفارش بھی چلتی رہی ہے اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ ہوں، وہ بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے رہے ہیں۔ جہاں مقدمات میں التوا ختم کیا جا رہا ہے ، وہاں مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے نظام کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے عدالتی نظام کا بڑا مسئلہ ماتحت عدالتیں ہیں۔ اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ اس کو سب سے زیادہ مشکل کا کہاں سامناہے تو سب یک زبان کہیں گے کہ ماتحت عدالتوں کا بہت برا حال ہے۔ عام سائل کا جو استحصال ماتحت عدلیہ میں ہوتا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں۔ لوگ ماتحت عدلیہ میں چکر لگا کر اتنا تھک جاتے ہیں کہ ان میں اعلی عدالتوں میں جانے کی سکت ہی باقی نہیں رہتی۔ ماتحت عدلیہ میں انصاف کم اور استحصال زیاد ہوتا ہے۔

لیکن ہمارے عدلیہ کے ذمے داران ماتحت عدلیہ کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اعلی عدلیہ کے ججز کو کیا ماتحت عدلیہ میں سہولیات اور صورتحال کا کوئی اندازہ بھی ہے۔

میں سمجھتا ہوں چیف جسٹس پاکستان کو فوری طور پر ملک کے پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ ملکر ملک میں انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بنانی چاہیے۔ اگر تاریخ پر تاریخ کا کلچر سپریم کورٹ میں ختم کرنا ہے تو پھر یہ کلچر ہائی کورٹس اور ماتحت عدلیہ میں کیوں نہیں ختم نہیں ہو سکتا۔

اس وقت ماتحت عدلیہ میں ایک جج کی روزانہ کی کاز لسٹ تقریبا دو سو سے تین سو کیسز پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن عملا ایک جج کے لیے ایک دن کے مقررہ ڈیوٹی ٹائم میں دو سے تین سو کیس سنناممکن ہی نہیں ہے۔ جب آپ کے سامنے روزانہ دو سے تین سو کیس لگائے جائیں گے تو آپ تاریخ پر تاریخ ہی دیں گے۔

اس لیے سب سے پہلے تو اس کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ میں مانتا ہوں کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن خانہ پری کے لیے انھیں سماعت کے لیے مقرر کرنا بھی درست حکمت عملی نہیں ہے۔ جو بھی تاریخ مقرر کی جائے اس دن کیس میں کوئی پیش رفت ہونی چاہیے۔ عدلیہ کے ذمے داران کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب وہ کسی کی تاریخ مقرر کرتے ہیں تو سائل کو کتنی خواری ہوتی ہے۔ وکیل کو لانا ہے، خود بھی دن ضایع کرنا ہے۔

اس لیے چیف جسٹس پاکستان ایک ایسا لائحہ عمل بنا دیں کہ کیس بے شک دو ماہ بعد لگے لیکن جب لگے تواس میں پیش رفت لازمی ہو۔ التو ممکن نہ ہو۔ کیس کی پیش رفت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اسی طرح جج کی چھٹی پر کیس کے التوا کا بھی حل نکالنا ہوگا۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اکثر ججز بھی تاریخ ڈالنے میں آسانی سمجھتے ہیں۔ وکلا بھی التوا مانگتے ہیں۔

اس لیے کہیں نہ کہیں التوا اور مقدمات میں تاخیر پر سسٹم کو بھی ذمے دار ٹھہرانا ہوگا۔ وکیل کو تاریخ تب ہی ملتی ہے جب جج تاریخ دیتا ہے۔جب تک جج تاریخ نہ دے تاریخ مل ہی نہیں سکتی۔ سائل کو بھی اجازت ہونی چاہے کہ اگر اس کے کیس میں بار بار تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے تو وہ جج کی بھی شکایت کر سکے۔ جج کو جوابدہ ہونا چاہیے ۔ جب تک ہم جج کو ذمے دار نہیں ٹھہرائیں گے معاملہ آگے نہیں چل سکتا۔

بہر حال تاریخ پر تاریخ نظام انصاف کے لیے ایک کینسر بن گیا ہے جس نے پورے عدالتی نظام کو مفلوج کیا ہوا ہے۔ اس کے علاج کے لیے نظام انصاف کی سرجری کرنا ہوگی۔ بغیر سرجری کے یہ علاج ممکن نہیں۔ سرجر ی تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن کرنی تو ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس