دنیا بھر کے مسلمانوں میں حرمین شریفین کی عقیدت و تعظیم بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور حرمین شریفین کی زیارت کی تڑپ ہر مسلمان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ صحیح السند احادیث کے مطابق بیت اللہ شریف میں ادا کی گئی ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں سے زیادہ اور مسجد نبوی شریف میں ادا کی گئی نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے زیادہ ہے۔ ہر عہد کے مسلمانوں کی کثیر تعداد بیت اللہ شریف کی طرف عمرے کا قصد کرتی رہی ہے اور حج بیت اللہ کے موقع پر پوری دنیا کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں جا کر اپنی التجاؤں کو پروردگارِ عالم کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ گو اللہ تبارک و تعالی ہر مقام پر انسانوں کی دعاؤں کو سننے والے ہیں لیکن خصوصیت سے بیت اللہ اور مسجد نبوی شریف میں اللہ تبارک و تعالی انسانوں پر بے پایاں رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ بہت سے لاعلاج مریض وہاں سے شفایاب ہو کر اور بہت سے مادی اور مالی مشکلات کا شکار افراد اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرکے وہاں سے نکلتے ہیں۔ ان مقامات کے سفروں کے نتیجے انسان کے ایمان میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔
قومی ریاستوں کے قیام کے بعد حجاز سعودی عرب کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے مسلمان جب حرمین شریفین کی زیارت کا قصد کرتے ہیں تو ان کو مملکت سعودیہ میں جانا پڑتا ہے ۔مملکت سعودیہ کے ساتھ حرمین شریفین کی نسبت سے مسلمانوں کا ایک روحانی تعلق ہے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح میرے دل میں بھی ہمیشہ سے حرمین شریفین کی زیارت کی تڑپ رہی۔ عمرہ کرنا اور مسجد نبوی شریف میں جا کر نماز ادا کرنا یقینا ایک ایسی خواہش ہے کہ جو پوری ہو بھی جائے تو انسان میں دوبارہ اس کو پورا کرنے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ میری عمر فقط گیارہ برس تھی جب میں نے والد گرامی علامہ احسان الہی ظہیر کے ہمراہ پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ گو کہ کم عمری کی وجہ سے یہ فرضی حج نہ تھا لیکن پھر بھی اس سفر کے دوران بہت زیادہ قلبی سکون حاصل ہوا۔ سعودی عرب کی بہت سی ممتاز شخصیات کے ساتھ علامہ احسان الہی ظہیر کے گہرے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ الصالح العبید، ڈاکٹر محسن عبداللہ ترکی، امام کعبہ عبداللہ ابن سبیل اور سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز بن باز ان کے ساتھ خصوصی پیار محبت فرمایا کرتے تھے۔ان میں سے کئی اہم شخصیات سے میں نے بچپن ہی میں ملاقات کی۔
ڈاکٹر عبداللہ ترکی جامع الامام یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اسی طرح ڈاکٹر عبداللہ صالح العبیدمدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور امام عبداللہ ابن سبیل کعب اللہ کے امام تھے۔ ان شخصیات سے میں نے کم عمری ہی میں ملاقات کی۔ اس کے بعد بھی مجھے وقفے وقفے کے ساتھ زیارتِ حرمین شریفین کا شرف حاصل ہوتا رہا اور جب بھی واپسی ہوتی ہے دوبارہ وہاں جانے کی تمنا دل میں مچل رہی ہوتی تھی۔ روحانی وابستگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ دیگر بہت سے حوالوں سے بھی گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد جامعہ ام القری مکہ مکرمہ ،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ،جامع الامام ریاض اور دیگر بہت سے مقامات پر قائم یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہے۔ وہاں سے علومِ اسلامیہ کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آکر خدماتِ دینیہ انجام دینے والے طلبہ کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے حصول کے لیے پیشہ ور پاکستانیوں کی بڑی تعداد دنیا کے دیگر مقامات کی طرح سعودی عرب کا بھی قصد کرتی ہے۔ سعودی عرب میں ملازمت کے پس منظر میں بیت اللہ الحرام کی زیارت اور مسجد نبوی شریف میں نماز کی ادائیگی کی خواہش بھی شامل ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں اپنے روزگار کے لیے محنت کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں لوگ مختلف محکموں میں کام کر رہے ہیں اور وہاں سے زرمبادلہ کی بڑی مقدار کو ملک بھیجا جاتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ سیاسی اور عسکری تعلقات بھی بہت گہرے ہیں اور پاکستان کے بہت سے سیاسی تنازعات کے حل میں بھی سعودی عرب نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی کے مابین ڈیڈ لاک کے حل کے لیے سعودی عرب نے اپنی خدمات پیش کی تھیں ۔اسی طرح دیگر بہت سے ملکی بحرانوں کے دوران بھی سعودی عرب اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعلق طویل عرصے پہ محیط ہے اور پاکستان کو جب بھی اس حوالے سے اپنے برادر ملک کی معاونت کی ضرورت پڑی سعودی عرب نے بے دریغ معاونت کی۔ جس وقت پاکستان نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ان پابندیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان کو بڑے پیمانے پر معاشی تعاون کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے ان ایام میں سعودی عرب نے نمایاں کردار ادا کیا اور طویل عرصے تک پاکستان کو پٹرول مفت فراہم کر کے پاکستان کے معاشی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خدمات کو پیش کیا۔
بہت سے معاشی بحرانوں کے دوران سعودی عرب پاکستان کو خطیر رقوم فراہم کر چکا ہے ۔اسی طرح پاکستان کو جب بھی کبھی کسی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا سعودی عرب نے پاکستان کے لیے بے لوث تعاون پیش کیا۔ بالا کوٹ کے زلزلے کے دوران ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے، ان کی بحالی کے لیے سب سے موثر کردار جن ممالک نے ادا کیا ان میں سعودی عرب کا نام سر فہرست ہے ۔اس حوالے سے سعودی عرب کے فرمانروا نے ذاتی طور پر ایک فنڈ قائم کیا تھا۔
ہر سال سعودی عرب اپنے قومی دن کے موقع پر دنیا بھر کے مختلف مقامات پر تقریبات کا انعقاد کرتا ہے ۔پاکستان میں بھی اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ملک بھر کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عسکری قیادت کے نمائندگان بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ ماضی میں مجھے بھی ان تقریبات میں شرکت کا موقع ملا اور اس سال بھی میں قومی دن کی تقریب میں شریک ہوا۔ امسال سعودی عرب کے سفارتخانے نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کی تمام نمائندہ مذہبی اور سیاسی قیادت کو مدعو کیا گیا تھا ۔یہ تقریب جہاں پاک سعودیہ دوستی کا مظہر تھی وہیں داخلی سطح پر بھی اہم شخصیات کو تبادلہ خیال کا موقع میسر آیا۔اس تقریب میں مسلم لیگ کے سینئر رہنما راجہ ظفرالحق ،مولانا فضل الرحمن ، عبداللہ حمید گل، مولانا محمد احمد لدھیانوی اور دیگر بہت سے نمایاں احباب نے شرکت کی۔ تقریب میں سعودی عرب کے سفیر نواف المالکی نے پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات پر احسن انداز میں روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ آئندہ آنے والے ماہ و سال کے دوران پاک سعودیہ تعلقات پہلے کی طرح مضبوط اور مستحکم رہیں گے اور ان کو مزید بہتر بنانے کے لیے سعودی عرب اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے اس موقع پر تعلقات کی حقیقی بنیاد کو بھی اجاگر کیا کہ پاک سعودیہ ہم آہنگی کی اصل وجہ اسلامی بھائی چارہ ہے۔ اس موقع پر مہمانِ خصوصی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب نے بھی پاک سعودیہ تعلقات کے حوالے سے بہت سے اہم امور کی نشاندہی کی اور بتلایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات زندگی کے تمام شعبوں پہ محیط ہیں اور پاکستان کو جب بھی کبھی ضرورت پڑی تو سعودی عرب نے بے دریغ پاکستان کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اس تقریب میں سعودی سفیر نے مختلف مہمانوں کی نشستوں کے قریب خود تشریف لا کر گرمجوشی سے ان سے ملاقات کی اور پاک سعودیہ تعلقات کے حوالے سے اپنے خوبصورت عزائم اور ارادوں کا نہایت احسن انداز میں اظہار کیا۔ اس تقریب میں مجھے پاکستان کی بہت سی اہم شخصیات کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کرنے کا موقع میسر آیا۔ تقریب کے اختتام پر شرکائے مجلس کے لیے بھرپور عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے روایتی کھانے مہمانوں کو پیش کیے گئے۔
کھانے کے دوران بھی پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے مختلف عمائدین ،سیاسی اور مذہبی رہنما اپنی اپنی تجاویز پیش کرتے رہے اور اس حوالے سے نیک تمناں اور جذبات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ پاک سعودیہ تعلقات کے حوالے سے ہونے والی یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لے کر اختتام پذیر ہوئی اور تقریب سے باہر نکلتے ہوئے ہر شخص کے دل میں ایک ہی تمنا اور لبوں پر یہی دعا تھی کہ اللہ تبارک و تعالی پاکستان کو مضبوط اور مستحکم فرمائے اور پاک سعودیہ تعلقات کے حوالے سے جو ماضی کی ایک تاریخ ہے مستقبل میں اس سے بھی بہتر نتائج ہمارے سامنے آئیں۔ اللہ تبارک وتعالی دونوں برادر مسلم ممالک کے مابین تعلقات کو ہمیشہ مضبوط اور مستحکم رکھے اور جوان تعلقات کو خراب کرنے کے لیے سازشیں کرتے ہیں، ان کی کوششوں کو ناکام اور نامراد کرے، آمین !
بشکریہ روزنامہ دنیا