آجکل محمد علی درانی کے مفاہمتی فارمولہ کا بہت شور ہے۔ بالخصوص جب سے تحریک انصاف نے محمد علی درانی کے مفاہمتی فارمولہ کی توثیق کی ہے تب سے ان کے فارمولے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف جیل میں تھے تب بھی محمد علی درانی نے ایک مفاہمتی کوشش شروع کی تھی۔
وہ جیل میں میاں شہباز شریف سے ملنے گئے تھے جس کا میڈیا میں بہت شور ہوا تھا۔ تب بھی یہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ اس مفاہمت کا کیا نتیجہ ہوگا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ نرم ہوا۔
اس لیے جو لوگ محمد علی درانی کے مفاہمتی فارمولہ پر آج سوال کر رہے انھیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ کوئی پہلی دفعہ یہ کام نہیں کر رہے۔
وہ یہ کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ کل پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مفاہمت کے لیے قائل کر نے والے محمد علی درانی آج پاکستان تحریک انصاف کو اسی مفاہمت پر قائل کر رہے ہیں۔ لیکن کیا کل جو کامیابی ملی تھی وہی کامیابی آج مل سکتی ہے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
محمد علی درانی نے موجودہ صورتحال میں اپنے مفاہمتی فارمولہ کے تین نکات بنائے ہیں۔ ان کے مطابق سب سیاسی جماعتوں کو ان کے اس تین نکاتی فارمولہ پر اتفاق کر لینا چاہیے۔ ان کے مطابق سب سیاسی جماعتوں کو اگلے انتخابات سے قبل یہ یقین دہانی کروانی چاہیے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت پاکستان کے خلاف سیاست نہیں کرے گی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت جمہوریت کے خلاف سیاست نہیں کرے گی۔ اسی طرح کوئی بھی سیاسی جماعت فوج کے خلاف سیاست نہیں کرے گی۔ فی الحال محمد علی درانی سیاسی جماعتوں سے ہی یقین دہانی مانگ رہے ہیں کہ وہ ان کے اس تین نکاتی فارمولہ پر متفق ہو جائیں اور اس کی حمایت کا اعلان کر دیں۔
محمد علی درانی نے ابتدائی طورپر صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کی ۔ ایک رائے یہ بھی ان کی صدر عارف علوی سے ملاقات کامیاب رہی کیونکہ محمد علی درانی سے ملاقات کے بعد صدر عارف علوی نے ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمیشن کو ایک مفاہمتی خط لکھا۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ محمد علی درانی کی صدر عارف علوی سے ملاقات سے قبل طاقتور لوگ بھی ان سے مل چکے تھے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ صدر عارف علوی سے جب محمد علی درانی ملے تب وہ مفاہمت پر تقریبا مان چکے تھے۔ زمین ہموار تھی اس لیے محمد علی درانی کو کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی۔
لیکن اس کے بعد بھی محمد علی درانی نے صدر مملکت سے ملاقات کی ہے۔ اس لیے دوبارہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ مفاہمت کا عمل آگے چل رہا ہے۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے شہباز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مفاہمت کی پالیسی پر قائل کر لیا تھا صدر عارف علوی تحریک انصااف کو قائل کر سکتے ہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے شہباز شریف نے اپنے لیڈر میاں نواز شریف کو مفاہمت پر قائل کر لیا تھا ویسے ہی کیا عارف علوی خان صاحب کو مفاہمت پر قائل کر لیں گے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔
محمد علی درانی کی صدر عارف علوی سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے ایک اعلی سطح کے وفد نے سابق اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں محمد علی درانی سے ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات اس لیے بھی اہم سمجھی جا رہی ہے کہ اس ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے باقاعدہ طور پر نہ صرف اس ملاقات کی خبر جاری کی گئی۔
بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اسد قیصر کی سربراہی میں ملنے والے وفد نے محمد علی درانی کے تین نکا تی فارمولہ سے مکمل طور پر اتفاق کیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے وفد نے محمد علی درانی کے تین نکاتی فارمولہ سے مکمل اتفاق کیا ہے۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ تحریک انصاف کے ایک سیاسی وفد کی ملاقات اور پھر اس ملاقات کی باقاعدہ تصدیق پھر محمد علی درانی کے فارمولے کی حمایت۔
اب سوال یہ ہے کہ اسد قیصر کی سربراہی میں ملنے والے اس وفد کو کیا صرف صدر عارف علوی کی حمایت حاصل ہے یا چیئرمین تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل ہے۔
کیا مفاہمت کا یہ عمل عار ف علوی اکیلے چلا رہے ہیں اور پارٹی کے اندر سے ایک بڑے دھڑے کی انھیں حمایت حاصل ہے۔ کیا ٹوئٹر ہینڈل سے جاری ہونے والی توثیق کو چیئرمین تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔ کیا چیئرمین تحریک انصاف بھی اب مفاہمت کے موڈ میں آچکے ہیں۔
کیا اٹک جیل سے چیئرمین تحریک انصاف اب مفاہمت کے لیے کوشاں ہے۔ کیا اسد قیصر نے محمد علی درانی سے چیئرمین تحریک انصاف کی مرضی سے ملاقات کی ہے۔ کیا فوج کے خلاف سیاست نہ کرنے کا فیصلہ اب چیئرمین تحریک انصاف کا ہے۔ یا چیئرمین تحریک انصاف کی مرضی کے بغیر ہی مفاہمت چل رہی ہے۔
میری رائے میں چیئرمین تحریک انصاف بے شک اٹک جیل میں ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا سوشل میڈیا کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر اب بھی کوئی ٹوئٹ ممکن نہیں۔ کیا چیئرمین تحریک انصاف کے جیل میں جانے کے بعد ان کی پارٹی پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ کیا تحریک انصاف بھی اب مزاحمت کی سیاست چھوڑ کر مفاہمت کی سیاست کے کلب کو جوائن کرنا چاہ رہی ہے۔ ان سوالات کے جواب سب اپنی اپنی مرضی سے ڈھونڈ رہے ہیں۔
ایک سوال کا جواب سب جاننا چاہتے ہیں۔ کیا اس مفاہمت کے نتیجے میں نو مئی کے ملزمان کو بھی معافی مل جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں شاید یہ ممکن نہیں ہے۔ محمد علی درانی کے مفاہمتی فارمولے میں نو مئی کے ملزمان کی معافی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس لیے میری رائے میں شاید چیئرمین تحریک انصاف اور نو مئی کے ملزمان کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ اسد قیصر کی طرح وہ لوگ جو نو مئی میں ملوث نہیں ان سے بات ہو سکتی ہے۔
ان کے لیے راستہ بن سکتا ہے لیکن نو مئی کے کسی ملزم کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایسے میں تو چیئرمین تحریک انصاف کے لیے بھی راستہ نہیں۔ پھر چیئرمین تحریک انصاف اس کی توثیق کیوں کر رہے ہیں۔
کیا چیئرمین تحریک انصاف کی مرضی کے بغیر ہی اب تحریک انصاف اپنی پالیسی بنا رہی ہے۔ یہ سب سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کیا اسد قیصر تحریک انصاف کے شہباز شریف بن سکتے ہیں۔
کیا اسد قیصر ساری تحریک انصاف کو اپنے گرد جمع کر کے چیئرمین تحریک انصاف پر دباؤ ڈال سکیں گے۔ کیا یہ مفاہمت درمیان میں ٹوٹ جائے گی۔ یا یہ اپنی منزل حاصل کر لے گی۔ لیکن محمد علی درانی نے کافی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس