نواز شریف کا “بھولپن” : تحریر نصرت جاوید


اپنے قائد کی محبت میں مسلم لیگ (نون) کے کئی سرکردہ رہ نما یکسوہوکر دہائی مچانا شروع ہوگئے ہیں کہ ٹی وی سکرینوں پر چھائے کئی اینکر نواز شریف کو وطن واپسی سے روکنے کی خاطر گمراہ کن خبریں پھیلارہے ہیں۔ سابق وزیراعظم مگر گھبرائیں گے نہیں۔21اکتوبر کے دن ہر صورت لندن سے لاہور پہنچ جائیں گے۔
یہ کالم لکھنے کے علاوہ گزشتہ چند ہفتوں سے میں نے ایک ٹی وی کے لئے ٹاک شو کی میزبانی بھی شروع کردی ہے۔ نواز شریف کی واپسی ان دونوں میں زیر بحث آتی رہی ہے۔عوام میں مقبولیت اگرچہ مجھے شاذہی میسر رہی۔ ذہن ساز ہونے کا گماں ویسے بھی مجھے کبھی لاحق نہیں رہا۔دیانت داری سے محسوس کرتا ہوں کہ صحافی سیاستدانوں کے لئے سوچ ہی نہیں سکتا۔
ہمارے سیاستدان اقتدار کے کھیل میں کامیاب وکامران ہونے کے ہر حربے سے بخوبی واقف ہیں۔وہ دو ٹکے کے رپورٹروں سے رہ نمائی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ نوازشریف تو ویسے بھی اس ملک کے سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں۔1970کی دہائی کے وسط میں اصغر خان کی بنائی تحریک استقلال میں شامل ہوکر نہایت خاموشی سے سیاسی داؤ پیچ کا مشاہدہ کرنا شروع ہوگئے تھے۔بعدازاں جنرل ضیاکے مارشل لاکے دوران 1980کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی پنجاب کے صوبیدار بنائے جنرل جیلانی نے ان کی سرپرستی شروع کردی۔ یاد رہے کہ پنجاب کے طاقت ور ترین صوبے دار بنائے جانے سے قبل جنرل جیلانی طویل برسوں تک آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہے تھے۔ ان کی شفقت کے ہوتے ہوئے نواز شریف کو کسی اور اتالیق کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
نواز شریف سیاست میں طویل عرصہ گزارنے کے باوجود خاندانی تربیت کی وجہ سے اپنائی عاجزی اور انکساری کی بدولت بھولے نظر آتے ہیں۔یہ بھول پن میری دانست میں اختیار کردہ ہے مگر ان سے ملنے والے صحافیوں کی اکثریت کو انہیں مشورے دینے کو اکساتا ہے۔ نوازشریف سے میری آخری ملاقات 2013کے ا نتخاب سے قبل ایک ٹی وی انٹرویو کی خاطر ہوئی تھی۔ اس کے بعد کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ان کے آخری دور حکومت میں بھی کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے ساتھ کسی غیر ملکی دورے کے لئے چنے صحافیوں میں شامل ہوا۔ مذکورہ دوری کے باوجود تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے مجھے لفافہ مشہور کردیا کیونکہ میں ان کے کرشمہ ساز دیدہ ور سے کبھی مرعوب نہیں ہوا اور ان کے اندازِسیاست کے بار ے میں بھی اپنے تحفظات دل کھول کر بیان کرتا رہا ہوں۔
بہرحال ذکر نواز شریف کا ہورہا ہے۔میں ذاتی طورپر دیانتداری سے یہ سوچتا ہوں کہ لندن میں چار برس کی خودساختہ جلاوطنی گزارنے کے بعد وہ 21اکتوبر2023کے دن وطن واپس نہ آئے تو ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ انہیں وطن واپس لوٹنے سے باز رکھنے والے افراد نواز شریف کے خیرخواہ ہونہیں سکتے۔ یہ لکھنے کے باوجود مصررہوں گا کہ اگر نواز شریف مقتدر کہلاتی قوتوں کے تیار کردہ سکرپٹ کے تحت وطن لوٹنے کوآمادہ نہ ہوئے تو انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کے خیر خواہوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نواز شریف سزا یافتہ مجرم کی حیثیت میں جیل بھیجے گئے تھے۔ انہیں جیل بھجوانے کے لئے جس انداز میں قانون کو بروئے کار لایا گیا اس کے بارے میں بے تحاشہ واجب سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔اس حقیقت کو مگر جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بطور قیدی نواز شریف کو پہلے ہسپتال اور بعدازاں علاج کی خاطر لندن بھجوایا گیا تھا۔ہماری تاریخ میں سزا یافتہ قیدیوں کو ایسی سہولت شاذہی نصیب ہوئی۔
مذکورہ بالا تناظر پر ٹھنڈے دل سے غور کے بعد یہ حقیقت بھی ذہن میں لانا ہوگی کہ لاہور آمد کے بعد نواز شریف صاحب اگرسیدھا جیل نہیں جانا چاہتے تو انہیں عدالت سے حفاظتی ضمانت درکار ہوگی۔مذکورہ بندوبست کااہتمام لازمی ہے کیونکہ لندن روانگی سے قبل وفاقی کابینہ کی اجازت کے باوجود انہیں لاہور ہائیکورٹ سے یہ تحریری وعدہ کرنا پڑا تھا کہ وہ علاج کے بعد وطن لوٹ کر اپنے خلاف سنائی سزا اور دیگر مقدمات کا معمول کے مطابق سامنا کریں گے۔
نظر بظاہر نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کا حصول ممکن ہے۔عدالتوں کو مگر اپنی پسند کے فیصلے لینے پر ان دنوں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ فرض کیا حفاظتی ضمانت سے انکار ہوگیا تو نواز شریف کو ایئرپورٹ اترتے ہی گرفتار کرکے جیل بھجوانا ہوگا۔ اپنی ضمانت کا انتظار اس کے بعد انہیں جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر ہی کرنا ہوگا۔ غالبا اسی امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ کے سرکردہ رہ نماں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لاہور ایئرپورٹ پر ان کے تاریخی استقبال کی تیاریوں سے گریز کیا جائے۔جس روزان کی لاہور آمد متوقع ہے اس دن شام کے وقت مینارِ پاکستان میں ایک اجتماع کااہتمام ہو۔ نواز شریف اگر ایئرپورٹ پر اترتے ہی گرفتارنہیں ہوتے تو وہ مذکورہ جلسے سے خطاب فرمالیں۔ان کی گرفتاری کی صورت مینارِ پاکستان تلے جمع ہوئے افراد سے مسلم لیگ کے دیگر رہنما خاص طورپر مریم نواز صاحبہ دھواں دھار خطاب کرسکتی ہیں۔لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی نواز شریف کی گرفتاری ان کی سیاست کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔اس تاثر کو بلکہ ہوا میں اڑادے گی کہ وہ مقتدر قوتوں کے ساتھ طے ہوئے کسی بندوبست کے تحت وطن لوٹے ہیں۔
نواز شریف وطن لوٹتے ہی اگر جیل بھجوا دئے گئے تو ان کی پہلی ترجیح ضمانت پر رہائی ہوگی جس کے حصول کے بعد ہی وہ اپنی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس مہم کے دوران وہ کون سا بیانیہ عوام کے روبرو رکھیں گے وہ اپنی جگہ بھرپور اہمیت کا حامل ہے۔ فی الوقت مگر ہمارا کلیدی موضوع نہیں ہے۔گزشتہ تین دنوں سے مگر ان کی جانب سے اختیار کردہ بیانیہ ہی ٹی وی سکرینوں پر چھائی گفتگو کا موضوع ہے۔ صحافیوں اور مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ حال ہی میں نواز شریف نے ریاست کے دو ستونوں سے جڑے جن چار افرا د کے نام لے کر ان کے کڑے احتساب کا مطالبہ شروع کردیا ہے اس نے مقتدرکہلاتی قوتوں کو چونکادیا ہے۔ شہباز شریف صاحب کو اس ضمن میں تحفظات سے آگاہ کردیا گیا۔مبینہ تحفظات کو نواز شریف تک پہنچانے شہبازشریف لندن سے لاہور آنے کے چند ہی گھنٹوں بعد برطانیہ لوٹ گئے۔شہباز صاحب کی ہنگامی حالات میں لندن روانگی پر غور کریں تو اگر (اور میں اگر پر زور دوں گا) کوئی شخص اب نواز شریف کی 21اکتوبر کے دن لاہور واپسی میں رکاوٹ بنے گا تو وہ عوام میں مقبول ٹی وی اینکروں کا گروہ نہیں بلکہ ان کے برادرِخورد شہباز شریف ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت