حالیہ دنوں میں قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ایک مہینہ قبل قومی اسمبلی میں دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی کا بل پیش ہو چکا ہے، جو اس وقت قائمہ کمیٹی کے اندر زیر بحث ہے۔ ملک کی گٹھن زدہ تعلیمی ماحول میں یہ خبر ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ تعلیمی ادارے فیسوں میں مسلسل اضافے، غیر معیاری تدریسی نظام، تعلیمی سہولیات کا فقدان، کرپشن اور ذہنی و جنسی ہراسانی کے واقعات کے گرداب میں پھنس چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں طلبہ کی نمائندہ فورمز کی بحالی ناصرف جمہوری مزاج و روایات اور طلبہ حقوق کے تحفظ کا ضامن بن سکتی ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی سیاسی استحکام اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کی نوید لے کے آ سکتی ہے۔
طلبہ یونین پر پابندی آمر ضیاءالحق کی مارشل لاء آڈر کے تحت لگائی گئی۔ طلبہ جیسے باشعور طبقے کی مزاحمت مقتدر طبقے کے لئے ہمیشہ سے درد سر رہی ہے۔ ملک کی اشرافیہ، جاگیردار و سرمایہ طبقے اور عسکری قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قیادت سازی کے اس بنیادی پلیٹ فارم کو اپنی قدغنوں کا نشانہ بنایا۔ یہی وجہ سے ہے کہ ملک میں قیادت کا قفدان نظر آتا ہے۔ نظریاتی لیڈرشپ اور نظریاتی کارکن سے جماعتیں تہی دست نظر آتی ہے۔ سیاسی لوٹوں کی بھرمار ہے جو اسٹبلشمنٹ کی ہلکی سی جنبش ابرو کے ساتھ پارٹی، نعرہ اور نظریہ بدلنے کے لئے پریس کانفرنس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ سیاست میں متوسط طبقے کی نمائندہ ختم ہوگئی ہے۔ پیسے کے زور پر لیڈرز تراشے چلے جا رہے جو اہلیت اور صلاحیت سے عاری اور عوامی مسائل سے نابلد ہیں۔
تعلیمی دنیا میں یونین پر پابندی سے تعلیمی اداروں میں تشدد پروان چڑھا ہے۔ یونین کے زمانے میں تعلیمی اداروں میں بحث مباحثہ، رواداری اور بقائے باہمی کی فضا تھی۔ جبکہ یونین پر پابندی لگنے کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں میں شددپسندی اور انتہاپسندی در آئی ہے۔ پاور پالیٹیسک کا آغاز اسی وجہ سے ہوا کہ جمہوری پلیٹ فارم چھین لیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق یونین پر پابندی سے پہلے کے 38 برس میں تعلیمی اداروں میں کل طلبہ تصادم 151 ہوئے جبکہ پابندی لگنے کے بعد محض بیس برس میں 525 دفعہ تصادم ہوئے۔ اسی طرح پابندی لگنے سے پہلے 13 طلبہ قتل ہوئے، 284زخمی اور 110 طلبہ تعلیمی ادارے سے اخراج ہوا۔ جبکہ یونین پر پابندی کے بعد طلبہ قتل کی تعداد 165، زخمی 1210 اور اخراج کی تعداد 985 تک پہنچی ہے۔ (واضح رہے کہ یہ ڈیٹا 2004 تک کا ہے)۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ یونین پر پابندی لگنے سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا رجحان بڑھا ہے، مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور جمہوری رویہ اور روادادری میں شدید کمی آئی ہے۔
طلبہ یونین پر پابندی کا تعلیمی مسائل مییں اضافہ اور تعلیمی معیار کے گھٹنے کے علاوہ ایک افسوسناک نتیجہ غیر سیاسی لسانیت کی بنیاد پر کونسلز کا وجود میں آنا ہے۔ جس کے ساتھ تعلیمی اداروں سے ملی جذبہ مفقود ہوا ہے اور اس کی جگہ علاقائی تعصبات لے چکی ہے۔ یہ کونسلز قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور تعصبات کی نفرت انگیز جذبات کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آئے روز تعلیمی ادارے میدان جنگ میں بدل جاتے ہیں۔ اگر ہم رواں سال کا جائزہ لیں تو آغاز میں ہی جامعہ قائد میں بلوچ کونسل اور پختون کونسل کے مابین تصادم ہوا، جس میں درجنوں طلبہ شدید زخمی ہوئے اور ڈیڑھ مہینے کے لئے یونیورسٹی بند رہی۔ دو دن کے وقفے کے ساتھ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں انہی کونسلز کے مابین تصادم ہوا۔ اور اس کے بعد جامعہ پنجاب میں پنجاب کونسل اور پشتون کونسل کی لڑائی کی خبریں نشر ہوئی۔ الغرض لسانیت کی بنیاد پر بنی کونسلز قومی وحدت کو پراگندہ کرنے کا سبب اور فساد و جنگ کی علامت بن چکی ہیں۔
جامعہ قائد کی صورتحال کا اس تناظر میں جائزہ لیں تو انہی لسانیت اور علاقائیت کی بناء بنی کونسلز کا راج ہے۔ جنہوں نے ہر قسم کی سیاسی تنظیم پر اپنے خودساختہ ضابطہ کے تحت پابندی لگائی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال انہی کونسلز نے محض ‘طلبہ تنظیم’ سے تعلق رکھنے کے ‘جرم’ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پانچ طلبہ کو اغواء کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ کی رواداد قومی اسمبلی میں پہنچی اور قائمہ کمیٹی میں زیر بحث آئی۔ اس کے بعد یونیورسٹی سے ملوث افراد کو ایکسپل کیا گیا۔ لیکن بعض وزراء نے دخل اندازی کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کو ان طلبہ کی بحالی پر مجبور کیا۔ ماضی قریب میں جامعہ قائد میں بڑے پیمانے پر منشیات کے ترسیل اور استعمال کی خبریں اخبارات کی زینت بنی۔ نظریہ پاکستان کے خلاف نظریات کی ترویج جامعہ میں عروج پر ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ماحول نظریہ پاکستان اور اسلامی تہذیب ہٹ کے علاؤہ ہر تہذیب کو فراغ دینے کے لئے متحرک ہے۔
اس صورتحال میں یونین انتخاب کے فیصلے نے بہتری کے امکانات روشن کئے ہیں۔ بہترین ضابطہ اخلاق کو مرتب کرتے ہوئے، باہم تعاون کی فضا کے ساتھ اس کا انعقاد دوسرے تعلیمی داروں کے لئے ماڈل بن سکتا ہے۔ اس وقت یونین کے انتخابات کے انعقاد کے فیصلے کو تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرف سے داد و تحسین کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اسی سے توقع ہے کہ یونیورسٹی میں فسطائی سوچ کا خاتمہ ہوگا۔ جمہوری روایات اور مباحثہ کا کلچر پروان چڑھے گا۔ غیر قانونی عناصر کا دائرہ کار کم ہوگا اور طلبہ کے حقیقی مسائل کو ایڈرس کرنے کا پلیٹ فارم میسر آئے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ بہترین اسلوب پر یونین کے انتخاب منعقد کر کے طلبہ کو ان کا بنیادی حق دلوائی گی اور ملکی جمہوریت کے استحکام کا فریضہ ادا کرے گی۔ ملک کے تمام جامعات کو بھی بغیر وقت ضائع کئے اس سمت آنا ہوگا۔ کہ یہی ملکی تعلیم نظام کے مسائل کا نسخہء اکسیر ثابت ہوسکتا ہے۔