لاپتہ بیٹے کی دکھی ماں : تحریر حامد میر


یہ ایک ایسے باپ کی کہانی ہے جس نے اپنی جوا ن بیٹی کی عزت بچانے کیلئے اسے خود گاؤں کے کنویں میں پھینک دیا۔ باپ نے اپنی بیٹی کی عزت تو بچالی اپنا ذہنی توازن کھو دیا۔ اس بدقسمت باپ کا نام ماسٹر سالک تھا جو امرتسر کے اسلامیہ ہائی سکول خزانہ گیٹ میں اردو اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کی کہانی کے راوی ان کے ایک شاگرد غلام حیدر وائیں ہیں جوبعد میں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔غلام حیدر وائیں کی اگست 1947ء میں امرتسر سے لاہور ہجرت کی کہانی منیر احمد منیر کی نئی کتاب ’’جب پاکستان بن رہا تھا‘‘ میں شامل ہے۔ یہ کتاب ہجرت کی پندرہ سچی کہانیوں پر مشتمل ہے جنہیں پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ 1947ء میں پنجاب اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسند سکھوں اور ہندوؤں نے وہی کچھ کیا جو دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں نے یورپ کے یہودیوں کے ساتھ کیا۔ منیر احمد منیر نے جنوبی ایشیا کے ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے متاثرین کے ساتھ 1978ء سے 1986ء کے درمیان اپنے جریدے آتش فشاں کے لئے انٹرویو کئے۔ اس جریدے پر پاکستان کے تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے حکم پرپابندی لگا دی گئی تاہم آتش فشاں میں شائع ہونے والی ان سچی کہانیوں کو ’’جب پاکستان بن رہا تھا‘‘ میں محفوظ کردیاگیا ہے۔ غلام حیدر وائیں نے اپنی کہانی میں ماسٹر سالک کابھی ذکر کیا ہے۔ وائیں صاحب کے بقول یہ صرف ایک ماسٹر سالک کی بیٹی کی نہیں بلکہ ہزاروں مسلمان بیٹیوں کی کہانی ہے جنہوں نے اپنی عزتیں بچانے کے لئے کنوؤں اور نہروں میں چھلانگیں لگائیں یا سکھوں کی گولیاں سینے پر کھا کر شہید ہوگئیں۔ امرتسر کے مسلمان ہجرت کے بعد لاہور پہنچے تو انہوں نے لوئر مال پر اسلامیہ ہائی سکول خزانہ گیٹ قائم کردیا۔ امرتسر والے سکول کے ہیڈ ماسٹر سلطان محمود نے پرانے سکول کے طلبہ اور اساتذہ کو اس نئے سکول میں اکٹھا کردیا۔ ماسٹر سالک اکثر سکول میں ننگےپاؤں آ جاتے اور کلاس میں آ کر خاموش بیٹھے رہتے۔ ہیڈ ماسٹر انہیں کچھ نہیں کہتا تھا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ ماسٹرسالک نے پاکستان کے لئے اپنی بیٹی کی قربانی دی ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے بار بار اپنی امی جی یاد آتی رہیں۔ میںنے بچپن میں ان کی زبانی ایسی ہی کہانیاں سنی تھیں۔ انہوں نے جموں سے سیالکوٹ ہجرت کی تھی اور ایک لاری میں لاشوں کے نیچے چھپ کرپاکستان پہنچی تھیں۔ مہاراجہ پٹیالہ کے سکھ فوجیوں کےظلم و ستم کا وہ اکثر ذکر کرتی تھیں جنہوں نے پہلے جموں کے مسلمانوں کو لاریوں میں بھرا اور پھر انہیں اکالی دل اور آر ایس ایس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

انہی سکھ فوجیوں کی سنگدلی کا ذکر منیر احمد منیر کی کتاب میں بھی آیا ہے جہاں ظلم کے ایک عینی شاہد بشیراحمد نے بتایاکہ پٹیالہ میں پہلے مسلمانوں سے اسلحہ لیا گیا اور پھر ان کی عورتوں کو اغوا کرلیا گیا۔ پٹیالہ کے انار دانہ چوک میں سکھوں نے اغوا شدہ مسلمان عورتوں کے کپڑے اپنی کرپانوں اور تلواروں سے تار تار کرکے ان کا جلوس نکالا۔ مرد قتل کردیئے گئے اور جوان عورتوں کو مال غنیمت کی طرح آپس میں بانٹ لیا گیا۔ عمیر محمود صدیقی کی کتاب ’’ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟‘‘ میں ایسی کچھ اغوا شدہ مسلمان عورتوں کی کہانیاں شامل ہیں جو اب بوڑھی ہو چکی ہیں لیکن آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کےپاکستانی بھائی انہیں کسی طرح بازیاب کرائیں گے۔ پاکستان کےبعد پہلی عید 18اگست کو آئی۔ عید کے دن بھارت سے ایک مال گاڑی لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی۔ اس گاڑی کے ایک ڈبے پر خون سے لکھا گیا تھا کہ ’’پاکستانی مسلمانوں کے لئے عید کاتحفہ‘‘۔ جب ڈبے کا دروازہ کھولا گیا تواس میں معصوم بچوں کے کٹے ہوئے سر، ہاتھ اور عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیاں پڑی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا تو میری امی جی بہت روئی تھیں۔ کئی دن تک ہمارے گھر میں سوگ کا سماں تھا۔ ان کی ماں بھی ہجرت کے سفر میں سکھوں کے ہاتھوں اغوا ہوگئی تھیں۔ وہ پوچھا کرتیں کہ کیا ہم نے اپنی ماؤں اور بہنوں کی قربانی دے کر پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ یہاں ہم ایک دوسرے سے لڑیں؟۔

1947ء میں پاکستان کی طرف سفر کرنے والے 20 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے اور ہزاروں مسلمان عورتیں لاپتہ ہوگئیں۔ افسوس کہ پاکستان میں آج بھی اپنے شہریوں کولاپتہ کردیا جاتا ہے۔ منیراحمد منیر کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے لاپتہ صحافی مدثر نارو کی والدہ کا وائس میسج ملا۔ ان کا بیٹا 20 جولائی2018ٍء سے لاپتہ ہے۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے 25جولائی 2018ء کو ہونے والے الیکشن پر سوالات اٹھائے تھے۔ مدثر اور اس کی اہلیہ صدف چغتائی دونوں شاعر تھے۔ مدثر نے 2018ء کے حالات پر اپنی ایک پنجابی نظم سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی اور پھر اسے لاپتہ کردیا گیا۔ اس طویل نظم کے چند اشعار پیش ہیں۔

کڈھ نئیں سکدے جلسہ ریلی

خلقت دا اے اللہ بیلی

ہُندی پئی اے ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ

ہور کیہ ہندا اے مارشل لا

سچی گل سنا نئیں سکدے

ٹی وی خبر چلا نئیں سکدے

جھوٹ نوں دتا اے سچ بنا

ہور کیہ ہندا اے مارشل لا

کرے دبئی وچ موج بہادر

جیل دے وچ اے گاڈ فادر

اج وی بوٹاں ہیٹھ اے لاء

ہور کیہ ہندا اے مار شل لا

اپنی چوہدر رکھن لئی

سرتے چکی پھرن نشئی

باقی کسے نوں دین نا راہ

ہور کیہ ہندا اے مارشل لا

مدثر نارو نے اپنی نظم میں نجانے کس نشئی کا ذکر کیا تھا لیکن یہ نظم سامنے آتے ہی انہیں بالاکوٹ سے غائب کردیاگیا۔ اس وقت ان کا بیٹا سچل صرف چھ ماہ کا تھا۔ ان کی اہلیہ صدف نےسچل کو گود میں اٹھا کر مدثر کی بازیابی کے لئے بہت آواز اٹھائی اور ایک دن خود بھی پراسرار موت کا شکار ہو گئیں۔ 2021ء میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور 2022ء میں وزیراعظم شہباز شریف نے مدثر کی والدہ اور سچل سے ملاقات کی اور انہیں جلد انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ سچل کو پانچ سال سے انصاف نہیں ملا بلکہ آج کل تو پاکستانیوں کی جبری گمشدگیوں میں بہت اضافہ ہوچکا ہے۔ مدثر کی والدہ نے اپنے میسج میں کہا ہے کہ اب تو میں عدالتوں سے بھی مایوس ہو چکی ہوں۔ مجھے مدثر کی ماں میں اپنی ماں نظر آتی ہے جو پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم نے 1947ء میں اپنی ماؤں اور بہنوں کی عزتوں کو اس لئے قربان کیا کہ تم ہمارے پاکستان میں آپس میں لڑتے لڑتے آئین و قانون کوبھی لاپتہ کردو؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ