رجب المرجب میں حق رائے دہی : تحریر محمود شام


قوم کو بالآخر جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں قومی اسمبلیوں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کی نوید مل گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے ارکان قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بہت زیادہ اختیارات دے دیے ہیں۔ اب اس ادارے کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ یہ اختیارات عوام کے مفاد میں استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ دنیا بھر میں شفاف، منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انحصار آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشنوں پر ہوتا ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اداروں سے خود مختاری چھینی گئی ہے۔ پارلیمنٹ سب سے بالاتر ہے۔ لیکن جس طرح پارلیمنٹ 1988 سے قانون سازی کرتی آرہی ہے۔ عام طور پر کسی قانون پر مطلوبہ بحث نہیں ہوتی ۔ گزشتہ ایک سال میں قوانین جس طرح پلک جھپکنے میں منظور ہوئے اس پر خود پارلیمنٹ شرمسار ہوتی رہی۔

با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات اتوار 28 جنوری 2024کو ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ 90دن کی آئینی مدت پھر نظر انداز کی جارہی ہے۔ مگر ہم امید پرست اور مثبت سوچ رکھنے والے 28جنوری کو ہی اپنی منزل خیال کرسکتے ہیں ۔ اگر چہ ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔ صورتحال کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ پھر الیکشن کمیشن نے بھی مخصوص تاریخ کا تعین نہیں کیا ہے۔ اسلئے قوم بے تابی سے مقررہ تاریخ کے اعلان کی منتظر رہے گی۔ 28جنوری کو 16رجب المرجب 1445ہوسکتی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جب ماہ رجب کا آغاز ہوتا ہے تو رسول ﷺ دعا کرتے:’’ اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما۔ اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔‘‘

حضرت ذوالنوں مصریؒ فرماتے ہیں۔ ’’ رجب آفات کے ترک کا مہینہ ہے۔‘‘

یہ بھی روایت ہے :’’ رجب فصل بونے کا مہینہ ہے، شعبان پانی دینے کا اور رمضان فصل کاٹنے کا۔‘‘

بعض علما نے کہا ہے کہ ’’ سال درخت کی مثل ہے۔ ماہ رجب اس درخت کی ہریالی کے دن ہیں۔‘‘

ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو کر دل کی گہرائی سے دعا کرنی چاہئے کہ الیکشن کمیشن کا یہ عزم کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات منعقد ہوں گے، قائم رہے۔ ملک ان دو برسوں میں کتنی ہی آفات سے گزرا ہے۔ اور اب بھی گزر رہا ہے۔ گوادر سے واہگہ تک 23 کروڑ ہر روز سماجی، اخلاقی، سیاسی، آئینی بحران کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کی بد ترین مہنگائی نے کتنے کروڑ کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ قیادتیں ناکام ہوگئی ہیں۔ برسوں سے حکمرانی کا تجربہ کرنے والی سیاسی جماعتیں معیشت کو نہیں سنبھال سکیں۔ عوام نے جان لیا کہ ان کی نیت یہ تھی ہی نہیں۔ اب رجب آرہاہے۔ ساری آفات سے نجات ملے گی۔ان شاء اللہ۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے تبادلہ خیال کا دن۔

اس وقت عوام کی براہِ راست نمائندگی صرف بلدیاتی اداروں میں ہے۔ لیکن وہاں سے بھی مقامی مسائل پر کسی بحث مباحثے کی خبر نہیں آتی ۔ اگر بلدیاتی قیادتیں، میئر، چیئرمین،کونسلر اپنے آپ کو لوگوں کے حقیقی نمائندے سمجھتے ہوں۔ اور اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوں۔ تو اس وقت عوامی نمائندگی کے خلا کو محسوس نہ ہونے دیں۔ وہ اپنے کونسل ہالوں میں ایسے موضوعات پر اظہار خیال کریں کہ لوگ انہیں اپنا ترجمان سمجھیں۔ ایک منتخب ادارہ سینیٹ آف پاکستان ہے۔ لیکن یہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔ عوام کے براہِ راست ووٹ سے نہیں۔ اسے آئینی تسلسل اس لئے دیا گیا کہ ملک میں جب بھی قومی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہوجائے تو اہم بین الاقوامی قومی، علاقائی مسائل پر بحث اور فیصلوں کیلئے ایک منتخب ادارہ موجود ہو۔ لیکن سینیٹ ایسی روایات قائم نہیں کررہا۔

انتخابات کے اعلان کے بعد ملک میں انتخابی ماحول پیدا ہونا چاہئے۔ عوام کی طاقت، ذہانت اور اشتراک شامل امور ہونا چاہئے۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ سے بہت زیادہ سیاسی شعور رکھنے والے ہیں۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے یہ ثابت کیا۔ پھر جمہوریت اور عوامی حکمرانی کےلئے 1948 سے لے کر اب تک اکثر نازک مواقع پر بہت بھرپور تحریکیں چلیں۔ اب انٹرنیٹ، اسمارٹ فون اور مصنوعی ذہانت کے آلات نے عام اکثریت کے ادراک اور احساس میںمزید اضافہ کردیا ہے۔ 23 کروڑ میں سے 18 کروڑ کے پاس موبائل فون کنکشن بتائے جاتے ہیں۔ نوجوان ہوں بزرگ، شہری ہوں دیہاتی، مالک ہوں یا ملازم، محنت کش ہوںیا ہاری، سب موبائل فون کے پیکیجوں کی تفصیلات سے آشنا ہیں۔

معلوم نہیں کہ قومی سیاسی جماعتیں عوام کی اس بصیرت اور اہلیت کو استعمال کرنے سے کیوں خوف زدہ ہوتی ہیں۔ یہ جماعتیں کہتی تو ہیں کہ ’’عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں۔‘‘ ’’ووٹ کو عزت دو۔‘‘ لیکن ووٹر کی عزت نہیں کرتیں ۔ ووٹر کے سیاسی ادراک کو اپنی طاقت نہیں بناتیں۔ غور کیجئے اگر ہم 22کروڑ ذہنوں میں موجو دتوانائی کو فیصلہ سازی کا حصّہ بنائیں تو ملک کتنا آگے جاسکتا ہے۔انتخابات کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ ریاست کے فیصلوں میں عوام کو شرکت کا موقع دیا جائے۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا ہے۔ انہوں نے اپنی طاقت بحال کرنے کی بجائے ان غیر جماعتی انتخابات میں ابھر کر آنے والے انتخابیوں Electable کو ہی اپنی طاقت بنالیا ہے۔ یہ امیدوار کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ کیلئے بے چین نہیں ہوتے۔ بلکہ قومی سیاسی جماعتیں ان ممکنہ انتخابی کامرانوں کو اپنا ٹکٹ دینے کیلئے ان سے رابطے کرتی ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نعرے لگاتی ہیں۔ لیکن ان کے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ عہدیدار نامزد کئے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ضابطوں پر عملدرآمد کے لئے نام نہاد پارٹی انتخابات ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں،مذہبی سیاسی جماعتیں،ادارے، تنظیمیں، عام لوگوں کا وقت بھی استعمال کرتی ہیں۔ ان سے چندے اور عطیات بھی لیتی ہیں۔ لیکن ان کے شعور ان کے خیالات نہیں لیتیں۔ عوامی دانش کو استعمال کے قابل نہیں سمجھتیں ۔

عام طور پر ہم اجتماعی بے حسی کا ماتم تو کرتے ہیں۔ لیکن اجتماعی بصیرت کی بات نہیں کرتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پاکستان کی تاریخ، جغرافیے، معیشت، زراعت پر جس طرح گفتگو کرتے ہیں۔ اس سے ان کی غیر جانبداری ، معروضیت، بے باکی اور کسی دباؤ سے بے نیازی ثابت ہوتی ہے۔ ان میں پروفیسرز، اساتذہ، ٹیکنو کریٹ، محنت کش، ہاری، طلبہ، ریٹائرڈ فوجی سب شامل ہیں۔ منتخب اور مقتدر عوام کی ذہانت کو اپنے لئے مضر خیال کرتے ہیں۔ اسلئےعوام خود محلّے داری کے ذریعے اپنی فکر، اپنے آئیڈیاز، اپنے منصوبے سامنے لائیں۔ ملک آگے اسی صورت میں بڑھے گا کہ ملک کے اصل مالک عوام کی دانش کو بروئے کار لایا جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ