کاش ! مسلمان بادشاہ مولانا مودودی ؒ کا مشورہ مان لیتے : تحریر تنویر قیصر شاہد


44برس قبل عالمِ اسلام کے عظیم ترین عالمِ دین مولانا سید ابوالاعلی مودودی ستمبر کی آج ہی کی تاریخ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ ہمیں فخر اور مان ہونا چاہیے کہ سید مودودی پاکستانی تھے۔

انھوں نے اپنے فکر و فلسفہ، تحریروں، تقریروں اور تبلیغ سے پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ پاکستان ان کی اور وہ پاکستان کی پہچان بنے ۔دنیا میں کروڑوں افراد نے ان کی تحریروں سے ایمان کی روشنی اور حرارت حاصل کی۔ حرفِ مطبوعہ کی صورت میں انھوں نے لاتعداد افراد کے قلوب میں جو لاتعداد چراغ روشن کیے تھے، ان کی نور افشانی ہنوذ جاری ہے ۔

مولانا مودودی مرحوم کی 44ویں برسی کے موقع پر مجھے ممتاز دانشور اور کئی وقیع کتابوں کے مصنف و مولف پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے مجھے محترمہ سیدہ حمیرہ مودودی کی لکھی کتاب شجر ہائے سایہ دار پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔قیمتی اور تاریخی یادوں پر مشتمل اِس شاندار کتاب کے بیانئے سے میںنے صحیح معنوں میں لطف اٹھایا ہے۔
یہ دل آویز، دلکش و دلکشا کتاب مولانا سید مودودی صاحب علیہ رحمہ کی سب سے بڑی صاحبزادی کی تصنیف کردہ ہے۔ یوں تو یہ کتاب تقریبا ڈیڑھ عشرہ قبل اشاعت پذیر ہو گئی تھی لیکن مجھے پڑھنے کا موقع اب ملا ہے۔ محترمہ سیدہ حمیرہ مودودی انگریزی ادبیات کی استاد رہی ہیں ۔ انھوں نے لاہور، جیسور( سابقہ مشرقی پاکستان اور اب بنگلہ دیش) اور سعودی عرب کے گرلز کالجز میں برسوں طالبات کو انگلش لٹریچر پڑھایا ہے ۔

اپنے عظیم والد گرامی کی اجازت سے وہ جماعتِ اسلامی کی ایکٹوسٹ اور مبلغہ بھی رہی ہیں ، اس لیے بہت اچھی مقررہ کے اعزاز سے متصف بھی ہیں۔ اردو، انگریزی اور عربی زبانوں سے گہری واقفیت رکھتی ہیں۔ عربی زبان پر ان کی مکمل گرفت کا اظہار ہم اس وقت دیکھتے ہیں جب وہ شجر ہائے سایہ دار میں سعودی خواتین سے مکالمہ کرتی سنائی دیتی ہیں ۔

شجر ہائے سایہ دار محض مولانا سید مودودی ان کی والدہ محترمہ اور ان کی اہلیہ محترمہ بارے سادہ سی کتاب نہیں ہے، یہ صرف مولانا مودودی کی گھریلو زندگی کا عکس نہیں ہے، اِس میں ہمیں مولانا صاحب کی باطنی زندگی کی استقامت ، کمٹمنٹ اور صبر کی دلگداز داستانیں ہی نہیں ملتی ہیں بلکہ اِس کتاب میں تہذیبِ گم گشتہ کے آثار بھی ملتے ہیں ۔

یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ اگر کسی صاحبِ فکر اور عظیم کام کا بیڑہ اٹھانے والے شخص کو صابر و شاکر اہلیہ میسر آجائے تو زندگی کس قدر اطمینان بخش، راحت رساں اور سہل ہو جاتی ہے ۔ اللہ کریم نے سید مودودی کو ایسی ہی عظیم المرتبت اور پر عزیمت اہلیہ سے نوازا تھا۔ یوں میں یہ کہنے پر خود کو مجبور پاتا ہوں کہ یہ کتاب ( شجر ہائے سایہ دار) ہر مسلم خاتون کے لیے پڑھنا لازم ہے ۔

اِس چشم کشا تصنیف میں ہمیں کئی مقاماتِ عبرت بھی ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے استحصالی دور میں جس شخص نے مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت سنائی تھی، بعد ازاں وہی شخص حوادثِ زمانہ سے مجبور ہو کر، بعد از ریٹائرمنٹ، مولانا مودودی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ سفارشی رقعہ عنائت فرما دیجیے تاکہ مجھے ایک عرب ملک میں ملازمت مل جائے۔

مولانا نے سفارشی رقعہ لکھ دیااور اس شخص کو اسی رقعہ کی بنیاد پر اچھی ملازمت بھی مل گئی لیکن مولانا مودودی نے اشارتا بھی اس شخص کو یاد نہ دلایا کہ تم وہی شخص ہو ناں جس نے مجھے سزائے موت سنائی تھی !

ایوبی آمریت کے ظالمانہ اور ذوالفقارعلی بھٹو کے آزمائشی ایام میں مولانا مودودی صاحب کی سرکاری سر پرستی میں جس طرح کردار کشی کی کوششیں بروئے کار لائی گئیں ، یہ المناک داستانیں بھی اِس کتاب میں ملتی ہیں۔ اِن آزمائشوں سے مولانا مودودی خود ہی نہیں گزرے بلکہ ان کی تینوں صاحبزادیاں بھی گزریں۔ صبر کی ڈھال سے مگر ان سب نے سرکاری خونخوار نیزوں، بھالوں اور تیروں سے خود کو محفوظ کیے رکھا ۔

یہ سہل اور آسان کام نہ تھا مگر والدِ گرامی کی تربیت نے ساری راہیں آسان کر دیں۔ کتاب میں مندرج واقعات پڑھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے : یا خدایا، کس استقامت سے اس گھرانے کے ہر فرد نے مخالفین و حاسدین کے طعن و تشنیع ، تبروں اور دشناموں کو برداشت کیا ہوگا! کتاب میںیہ مقاماتِ عبرت بھی نظر آتے ہیں کہ جن خود سر اور طاقتور حاکموں ( جنرل ایوب خان اور ذو الفقار علی بھٹو) نے مودودی صاحب کو راستے سے ہٹانے کی ہر ممکنہ کوشش کی تھی، حالات کے جبر نے انہیں خود مولانا صاحب کے در پر لا کھڑا کیا ۔

مولانا صاحب نے مگر ان حاکموں کے ڈھب پر آنے سے پھر بھی انکار ہی کیا۔ زندگی بھر پاکستان میں مختلف مسالک کے علما کی جانب سے مولانا مودودی کو جس طرح کے دل شکن الزامات و دشنامات کا سامنا کرنا پڑا، اِن واقعات کی کئی جھلکیاں بھی شجر ہائے سایہ دار میں ملتی ہیں ۔

کتاب میں شامل دو حیرت انگیزخواب ہمیں گہری روحانی دنیا میں لے جاتے ہیں ۔حمیرہ مودودی صاحبہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے دو بار سید مودودی کی اہلیہ محترمہ کو سینیٹ کی رکنیت پیش کی تھی لیکن اہلیہ صاحبہ نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔

مجھے علامہ محمد اسد (The Road to Mecca ایسی معرکہ کتاب کے مصنف۔ جرمن نژاد نو مسلم۔ جنہوں نے قبولیتِ اسلام کے بعد اسلام اور عالمِ اسلام کی بے حد خدمت کی ) سے خاص محبت اور انس رہا ہے ۔شجر ہائے سایہ دار پڑھ کر یہ خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ مولانا سید مودودی کو قبل از تشکیلِ پاکستان علامہ محمد اسد کی میزبانی کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ علامہ اسد صاحب مرحوم کو سعودی عرب کے ابتدائی فرمانرواوں میں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔

سید ابوالاعلی مودودی صاحب علیہ رحمہ کی بھی مملکتِ سعودیہ بے حد تکریم کرتی تھی۔ سعودی بادشاہ، جناب شاہ فیصل شہید ، نے مولانا مودودی کو سعودی عرب کی شہریت دینے اور اپنا شاہی مشیر بنانے کی پیشکش کی تھی مگر بقول سیدہ حمیرہ مودودی، مولانا صاحب نے شکریئے کے ساتھ یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مصنفہ ہمیں بتاتی ہیں:مولانا مودودی نے سعودی فرمانروا، شاہ فیصل مرحوم، کو مشورہ دیا تھا کہ آپ کے پاس دولت کی کمی ہے نہ رقبے کی ، امریکا کی طرح، آپ بھی عالمِ اسلام کے سائنسدانوں اور بہترین دماغوں کو بھاری مشاہروں پر سعودی عرب آنے کی دعوت دیجیے اور ان سب کو سعودی عرب کی شہریت اور بنیادی حقوق بھی دیجیے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ نہ صرف سعودی عرب سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے میدانوں میں عروج حاصل کرے گا بلکہ پورے عالمِ اسلام کو بھی عروج ملے گا۔

سعودی بادشاہ نے مگر یہ کہہ کر مولانا مودودی کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا کہ میں ریال کے زور پر عالمِ اسلام کے بہترین دماغ تو سعودی عرب میں اکٹھا کر لوں، انہیں شہریت اور بنیادی حقوق بھی دے دوں مگر میرے ہم وطن پھر بکریاں چراتے رہ جائیں گے اور بے نام ہو کر صحراؤں میں گم ہو جائیں گے۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر سعودی بادشاہ ، مولانا مودودی کا مشورہ مان لیتے تو آج سعودی عرب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں کہاں کھڑا ہوتا!

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس