تعریف اس خدا کی جس نے عورت کو پیدا کیا : تحریر کشور ناہید


تعریف اس عدل کے نظام کی جس میں حلف لیتے ہوئےقاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ سرینا کو شامل کیا اور سپریم کورٹ کا رجسٹرار ایک خاتون کو مقرر کیا۔ اسلامی ممالک میں چند سربراہ اپنی بیگم کی صرف تصویر اترواتے دیکھے گئے ہیں۔ زندگی اور ڈیوٹی کی انجام دہی میں پاکستان میں پہلی خاتون فاطمہ جناح تھیں، بیگم لیاقت علی خان، بیگم بھٹو اور وقت پڑنے پر کلثوم نواز نے بھی اپنی سیاسی حیثیت کو اس مردانہ معاشرے میں منوایا۔ رہی بے نظیر ۔ تو وہ اپنے وقت کی بے نظیر رہی۔ اس کو بے موت مروانے والوں کے کلیجے میں ٹھنڈ پڑی۔ مگر نام اور سب کام زندہ ہیں۔ نئے چیف جسٹس کی حلف برداری میں شرکت کیلئے نگراں وزیراعلیٰ جسٹس باقر اور ان کی بیگم بھی کراچی سے میرےساتھ آرہے تھےاور پھر حلف برداری کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف کو بھی بیگم کے ساتھ دیکھ کر یہ آسودگی ہوئی کہ عورت پر جبر کا زمانہ بند کردیا گیا۔ البتہ نگراں وزیراعظم کو بھی بیگم کے ساتھ نگرانی کے مہینے گزارنے کیلئےبلوچی خواتین کو بھی عملی پیغام دینا چاہئے۔

کراچی جانے سے پہلے پندرہ سال کے بعد گوادر کو ایک نظر دیکھ لینے کی ہڑک اس لئے اٹھی کہ کسی شمارے میں مشرف صاحب کا بیان پڑھا۔ وہ کہتے تھے کہ گوادر دو سال میں بنکاک اور سنگاپور سے بھی بڑا شہر، دبئی اور خوبصورت علاقے گوا سے زیادہ یہاں جہاز اتریں گے اور سیاح سمندر کے ساحل پر دھوپ میں لیٹےگے اور ہم ڈالر کماتے نظر آئیں گے۔ میں یہ خواب دیکھتی ہوئی جہاز سے اتری مگر مچھیرے ایسی حالت میں کہ لنگوٹ میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ چاروں طرف نہ سڑکیں نہ بڑی بڑی عمارتیں، نہ بندرگاہ پر کچھ کام۔ بس ایک ہوٹل جہاں چوبدار آپ کو سنگینوں کے سائے میں ہوٹل کے اندر لے جاکر چھوڑ آتے ہیں۔ اگلے دن بیزار ہوکر اپنی مچھیرن دوستوں سے باتیں کرنے کے بعد پی آئی اے کے جہاز میں بیٹھ کر کراچی اتری۔ جہاز میں صرف دو ایئرہوسٹس تھیں۔ جن کی آواز میری طرح تھکی تھکی تھی۔ سینڈوچ رکھے، میں نے سونگھے، اشارے سے بلاکر خاتون کو سنگھایا۔ سوری کہہ کر دوسری ٹرے رکھ کر جلدی سے چلی گئیں۔ دوسری ٹرے واپس دیتے ہوئے کافی مانگی بولیں ’’ہمارے پاس کافی نہیں ہے۔‘‘ مجھے یاد آیا پچھلی دفعہ سفر میں جب کافی مانگی تو جواب ملا ’’سوری ہمارابوائلر کام نہیں کررہا ہے۔‘‘ میں سوچتی رہی کہ آخر یہ سفید ہاتھی کیوں پال رکھا ہے کہ ہر ہفتہ کہا جاتا ہے۔ اتنا خسارہ ہے مگر ؟ گلے کا ہار، پی آئی اے اور اسٹیل فیکٹری۔

کراچی میں تمام سڑکیں یا تو ٹوٹ کر پھر بن رہی تھیں یا پھر اکھیڑی جا رہی تھیں۔ اس زمانے میں جتنے کھانے تھے وہ چاہے نور الہدیٰ کے گھر کہ زہرہ آپا کہ تنویر کے گھر، سب کے ہاں گیس بند تھی۔ اس لئے کہیں کھانے ٹھنڈے یا پھر تنوری روٹی کی کڑکڑاہٹ برداشت کرنا پڑی۔ مگر قیمت گراں نہیں کہ ایک طرف آرٹس کونسل میں مہینے بھر کیلئے ڈرامے ہو رہے تھے اور حسینہ معین ہال میں ادبی تقاریب، کمال یہ تھا کہ ہر دو تقاریب میں نوجوان نسل ہنستی باتیں کرتی، سوال پوچھتی اور ہمارے مرجھائے چہروں کو شگفتگی دکھاتی نظر آئی۔ میں جب نوکری میں تھی اور تھیٹر فیسٹیول کرتی تھی تو سرکاری غنچے پوچھتے تھے؟ پیسےکہاں سے آئے۔ اب یہی بات احمد شاہ صاحب کی مصروفیت دیکھ کر بول رہے ہیں پیسے کہاں سے آئے۔ جو جانتے ہیں کہ سفارت خانوں کو ذرا شیخی میں لے آؤ۔ وہ اپنے ملک کا طائفہ کبھی میوزک کبھی ڈانس اور کبھی تھیٹر کی شکل میں حاصل کر کے اسٹیج پر دکھا دیتے ہیں۔

بقول ابن انشا ’’سات دن میں آٹھ میلے‘‘ ہورہے تھے۔ یہی چہل پہل میری کتاب ’’تار تار پیرھن‘‘ میں بھی دیکھی گئی۔ مضمون پڑھنے والوں میں ڈاکٹر جعفر اور ڈاکٹر انعام ندیم شامل تھے، زہرہ آپا صدارت کررہی تھیں۔ افضال تنویر اور نورالہدیٰ کی کتاب میں دنیا بھر کے واقعات نکال رہی تھیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بہت سی نئی اور ساری ہم عصر شاعرات کے علاوہ نذیر لغاری موجود تھے مگر امینہ سید، دردانہ سومرو اور غازی صلاح الدین مع ہماری صالحہ کے ساتھ شامل گفتگو تھے جب سارے نوجوان لکھنے والے لائبریری میں بیٹھے، میرے 62سال کے شعری تجربات کو تجزیے کی دھار سے گزار رہے تھے، کمال تو یہ رہا کہ ہمارے ساتھ سینئر ادبا اور شعرا کو شاید کسی مشاعرے میں جانا تھا۔ ان کو یاد کیا اور دعائیں دیں۔

ویانا یونیورسٹی سے جلیلہ حیدر اور ندا عثمان نے، قانون کا بہت عملیت کے ساتھ پاس کیا۔ یہ عزت بھی خواتین کو ملی۔ ورنہ لندن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے جانے والے نوجوان، نہ کسی تربیتی ورکشاپ میں شامل ہوتے ہیں اور نہ کہیں نوکری کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ لندن کو بھی پاکستان سمجھ لیا ہے۔ نگراں حکومت اس وقت بہت کچھ کر رہی، یعنی ہر روز کسی نہ کسی جگہ صدارت اور ٹی وی کوریج۔ ابھی نجیبہ عارف نے لوک ادب اور بچوں کے موضوع پر مذاکرہ رکھا تھا۔ نجیبہ کی والدہ پرسوں وفات پا گئیں، پھر بھی نجیبہ کو دفتر آنا پڑا۔ بچوں کو اکٹھا کرنے میں اسکولوں نے بھی مدد کی۔ کوئی 100لڑکیاں اور اتنے ہی لڑکے تھے۔ بچوں سے بہت سے سوال پوچھے تو استادوں کو نصیحت کی گئی کہ کورس کی کتابوں کے علاوہ کچھ ایسے لمحات فراہم کئے جائیں کہ وہ ذاتی مسائل، ملکی مسائل اور گھر کی معیشت کے بارے میں مقالے کے انداز میں بات کرنا سیکھ جائیں۔ ہر اسکول کے بچوں کو شعر پڑھنے، کہانی سنانے کا فن سکھایا جائے۔ اللہ کرے ہمارے بچے، لندن میں آوارہ پھرتے بچوں جیسے نہ ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ