عالمِ بے سروسامانی اور جذبوں کی تابانی : تحریر الطاف حسن قریشی


خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے فرمایا ہندوستان کی سیاسی غلامی تمام ایشیا کے لئے لامتناہی مصائب کا منبع ہے۔ اِس نے مشرق کی روح کچل ڈالی ہے اور اِسے آزادی کی اُس مسرّت اور قوت سے محروم کر دیا ہے جس کی بدولت کبھی اِس کے اندر ایک بلند اَور شاندار تمدن پیدا ہوا تھا۔ ہم پر ایک فرض ہندوستان کی طرف سے عائد ہوتا ہے جو ہمارا وَطن ہے اور جس میں ہمیں جینا اور مرنا ہے اور ایک فرض ایشیا بالخصوص اسلامی ایشیا کی جانب سے۔ دوسرے ممالک کی نسبت میرے ملک میں سات کروڑ مسلمانوں کی موجودگی اسلام کےلئے ایک بیش بہا سرمایہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہندوستان کے مسئلے پر سنجیدگی سے مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے بھی غور کریں۔ مَیں آپ سے اپنا یہ احساس پوشیدہ نہیں رکھ سکتا کہ موجودہ نازک حالات کے تدارک اور حل کے لئے ہماری ملت کو مستقبل قریب میں آزادانہ جدوجہد کرنا پڑے گی، لیکن ایک سیاسی طرزِ عمل کے لئے آزادانہ جدوجہد اُسی وقت ممکن ہے جب پوری قوم اِس پر تیار ہو اَور اِس کے تمام تر ارادے اور عزائم ایک ہی مقصد پر مرکوز ہو جائیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبۂ صدارت میں ایک لازوال حکمتِ عملی کا رنگ بھرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کی ایک بلیغ آیت ہے کہ ہمارے نزدیک ملت کی موت و حیات کا سوال ایسا ہی ہے جیسے ایک فرد کی موت و حیات کا۔ پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ مسلمان یہ دعویٰ کریں کہ ہم ہی ہیں جو سب سے پہلے انسانیت کے اِس بلند اَور وَاضح تصوّر پر عمل پیرا ہوئے اور اَب نفسِ واحد کی طرح زندہ رَہ سکتے ہیں۔ اِس مقصد کے لئے ایک صحیح اجتماعی ’’انا‘‘ پیدا کرنا ہو گی۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں سائمن کمیشن کی سفارشات اور گول میز کانفرنس میں اٹھنے والے موضوعات پر اَپنی ناقدانہ رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے گول میز کانفرنس کی کارکردگی سے مایوسی ہوئی ہے۔ وہاں فیڈریشن کی جو اسکیم پیش کی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے لئے بہت خطرناک ہے کیونکہ اِس میں دیسی ریاستوں کے والی بھی شامل کر لئے ہیں جو بھاری اکثریت میں غیرمنظم ہیں۔ اُنہوں نے اِس خیال کی پوری حمایت کی کہ صوبوں کی نئے سرے سے حدبندی ہونی چاہئے جس میں مذہب، زبان، تاریخ، تہذیب و تمدن کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ اُنہوں نے بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کا مقدمہ بھی دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ اِس امر پر بھی زور دِیا کہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں اور فرقہ واریت کا مسئلہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق طے کیا جائے۔ ’’عظمت و دَانش‘‘ اور ’’شوکتِ احساس‘‘ اور اَفکار کی تازگی کی مہک اِس پورے خطبۂ الہ آباد میں رچی بسی ہے جس نے اِسے تاریخ ساز اَور لافانی نظریاتی اور آئینی شاہکار بنا دیا ہے۔علامہ اقبال کا خطبہ جہاں ایک تاریخ ساز دستاویز ہے، وہاں 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا انعقاد بھی عزیمت کی ایک حیرت انگیز کہانی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل رہی۔ اِس عظیم داستان کی تفصیلات پہلی بار ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے اپنی مایہ ناز تصنیف The All India Muslim League and Allama Iqbal’s Allabad Address 1930 میں بیان کی ہیں جو اِقبال اکیڈمی پاکستان، لاہور نے 2013ء میں شائع کی۔ اِس داستان کے مطابق بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں آل انڈیا مسلم لیگ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رَہی تھی۔ مرکزی خلافت کمیٹی اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے قیام سے مسلم لیگ کی وہ حیثیت متاثر ہوئی جو اِسے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اُمنگوں کے ترجمان کے طور پر حاصل تھی۔ پھر اِس کی سیاسی قوت کو 1927ء میں سخت دھچکا پہنچا جب وہ دو گروہوں میں سائمن کمیشن اور دِہلی تجاویز کے مسئلے پر تقسیم ہو گئی۔ اِس کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ کے 1928ء اور 1929ء کے سالانہ اجلاس بھی منعقد نہیں ہو پائے تھے۔ 1930ء کے اوائل میں دونوں گروپ اگرچہ متحد ہو گئے تھے مگر جماعت کی سیاسی سرگرمیاں ابھی رو بہ زوال ہی تھیں۔اِس کے علاوہ پارٹی کی مالی حالت خاصی کمزور تھی جو ہزاروں کی مقروض تھی۔ بار بار کی اپیلوں کے باوجود 1930ء میں صرف 87 روپے جمع ہو سکے۔ قائدِاعظم کی فیاضانہ امداد ہی سے مسلم لیگ کے روزمرہ کے اخراجات پورے ہوتے۔ اِس کمزور مالی حالت کے پیشِ نظر سالانہ اجلاس کے مقام کا اِنتخاب کرتے وقت اِس امر کا خاص خیال رکھا گیا کہ ارکان کو وہاں پہنچنے میں دقت نہ ہو اَور کوئی ایسا مربی تلاش کیا جائے جو میزبانی کا بار اُٹھا سکے۔ اُس کڑے وقت میں آفس سیکرٹری سیّد شمس الحسن نے پارٹی کو فعال رکھنے میں اہم کردار اَدا کیا۔ اُنہوں نے پہلے لکھنؤ، پھر بنارس اور آخر میں الہ آباد میں سالانہ اجلاس کے انتظامات پر خصوصی توجہ دی۔ وہ غیرمعمولی استقامت اور اِنتظامی صلاحیت سے کام نہ لیتے، تو آل انڈیا مسلم لیگ کا دفتر کبھی کا بند ہو چکا ہوتا۔ خوش قسمتی سے اُنہیں نہایت مخلص عہدےدار محمد یعقوب کا مکمل تعاون حاصل رہا جو اُن دنوں اعزازی سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اِن حددرجہ وفادار شخصیتوں کی بدولت الہ آباد میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔بار بار مقام اور تاریخوں کی تبدیلی میں کئی راز مضمر تھے۔ محمد یعقوب نے کونسل کے تمام اراکین کو خط لکھا کہ سائمن کمیشن کی رپورٹ شائع ہو چکی ہے جس پر غوروخوض کے لئے جلد سے جلد سفارشات ارسال کی جائیں۔ شملہ میں کونسل کا اجلاس 13 جولائی 1930ء کو ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سالانہ اجلاس 16؍اور 17؍اگست کے درمیان لکھنؤ میں ہو گا اور علامہ محمد اقبال، سر سلطان محمد، مولوی فضل الحق اور صاحبزادہ عبدالقیوم مختلف نشستوں کی صدارت کے لئے مدعو کئے جائیں گے۔ اِس فیصلے کی روشنی میں قائدِ اعظم نے اُسی روز لندن سے علامہ اقبال کو سالانہ اجلاس کی صدارت قبول کرنے کے لئے ٹیلی گرام بھیجا، تاہم 21جولائی تک جواب موصول نہیں ہوا۔ 23 جولائی کو روزنامہ ’انقلاب‘ میں خبر شائع ہوئی کہ اُس کا نامہ نگار، جو علامہ اقبال سے رابطے میں ہے، اُس نے اطلاع دی ہے کہ اُنہوں نے سالانہ اجلاس کی صدارت کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ