آزاد کشمیر کے بجلی کے معاملات فیڈرل حکومت سے اٹھانے کیلئے جہاں ایک مربوط پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے وہاں کچھ بنیادی معاملات سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ مثلا” کہا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کا ٹیرف پاکستان کے برابر ہونے کا قانون موجود ہے۔لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آزاد کشمیر میں کچھ عرصہ قبل جب 1910 کا یہ قانون نافذ کیا گیا تو اس وقت بجلی کی پیداوار کے ذرائع اور ترسیل کا کیا نظام تھا ؟ زمانے کے حالات اور ذرائع پیداوار بدلنے سے قوانین میں تبدیلی اور ترامیم ایک مستقل قانونی عمل ہے جب ذرائع اور انتظامات بدلیں گے تو پرانا قانون تبدیل کرنا ایک لازمی امر بن جاتا ہے ۔ جس وقت یہ قانون لاگو کیا گیا اس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا بڑا حصہ پن بجلی تھی اور واپڈا اس کا تقسیم کار تھا، بجلی کے بلات کی ادائیگی لوگوں کی استطاعت میں تھی۔ اس وقت پاکستان میں پرائیویٹ پاور پراجیکٹس کا ڈسکوز ڈانس شروع نہیں ہوا تھا۔جس کی وجہ سے بجلی کی فی یونٹ قیمت 50 روپے تک جا پہنچی جس کا سالانہ بھتہ دو ہزار ارب روپے بجلی پیدا کئے بغیر وصول کیا جاتا ہے اور اس بھتہ خوری کا بوجھ لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر رہا ہے۔ اس وقت آزادکشمیر میں بھی واپڈا آزاد کشمیر میں براہ راست بجلی دیتا تھا اور پرائیویٹ سیکٹر کی لوٹ مار شامل نہ تھی۔ اب آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکساں ٹیرف کے نام پر جو واردات کی جا رہی ہے وہ ایسی دو دھاری تلوار ہے ایک طرف ڈسکوز کی جانب سے آزاد کشمیر حکومت سے اس نرخ پر بجلی کی قیمت وصول کی جا رہی ہے جو نرخ پاکستان میں لاگو ہیں جس میں ان پرائیویٹ کمپنیوں کی لوٹ مار،بجلی کی چوری اور مفت بجلی کے ارب ہاء روپے پاکستانی عوام کے بلات میں ڈالے جاتے ہیں اور وہی ریٹ آزادکشمیر حکومت لوگوں پر لاگو کر کے یہاں سے وصول کرتی ہے ۔ اس واردات پر آزاد کشمیر کے لوگ یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ پاکستان کی بدمعاشیہ کے جرائم کی سزا میں آزادکشمیر کے لوگوں کو مال غنیمت کے طور پر کیوں استعمال کیا جا رہا ہے. لہذا اس بات کی کوئی جوازیت نہیں کہ چونکہ پاکستان میں لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں لہذا یکساں ٹیرف کے فارمولے کے مطابق آزاد کشمیر کے لوگوں کو بھی ضرور قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ آزاد کشمیر کے لوگوں کا معاملہ اس طور پر بھی مختلف ہے کہ واپڈا آزاد کشمیر میں واقع منگلا ڈیم سے سالانہ 1300 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جہاں سے آئین پاکستان کی آرٹیکلز 157 اور 161 کی روشنی میں بجلی تو پاکستان بھیجی جا سکتی ہے لیکن اس سے کوئی منافع نہیں کمایا جا سکتا بلکہ وہ اپنے رواں اخراجات منہا کر کے باقی ساری آمدنی اس صوبے کو دینے کا پابند ہے جہاں یہ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ لہذا آزاد کشمیر کا یہ حق ہے کہ انہیں یہاں 400 میگاواٹ بجلی ،موجودہ پیداواری لاگت 2 روپے فی یونٹ کے ریٹ پر براہ راست مہیا کی جائے۔ دوسری واردات فیڈرل لیول پر آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ یہ کی جاتی ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو بجلی کا بل تو 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کا بھیجا جاتا ہے لیکن ڈسکوز کو 30 روپیہ فی یونٹ کی ادائیگی کیلئے تقریبا” 27 روپے فی یونٹ کا فرق آزاد کشمیر کے حصہ سے فیڈرل حکومت کے مالیاتی حصص کے پول سے کاٹ کر ڈسکوز کو دے دیئے جاتے ہیں ۔اس طرح آزاد کشمیر کے حصہ کے سالانہ ارب ہاء روپے سے آزاد کشمیر کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ پھر آزاد کشمیر حکومت کی اپنی باری آتی ہے کہ یہ ایسا ہی ہاتھ آزاد کشمیر کے لوگوں سے کرے۔ محکمہ مالیات محکمہ برقیات کے بلات میں وہ آئیم بھی شامل کر کے آمدنی کا ہدف مقرر کرتا ہے جس میں بلا جواز ٹیکسز اور سرکلر ڈیٹ کے وہ چارجز بھی شامل کئے جاتے جو آزاد کشمیر میں لاگو کرنے کی کوئی جوازیت نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگ نیلم جہلم پراجیکٹ کا وہ سرچارج بھی دیتے رہے جو کبھی واپڈا کو نہیں بھیجا گیا اس طرح آزاد کشمیر کے لوگوں کو ان کے پانی اور بجلی پر حق ملکیت اور حق استفادہ سے جو اقوام متحدہ کے متعدد انسانی حقوق کے چارٹرز میں گارنٹی کئے گئے ان بنیادی انسانی حقوق سے انہیں محروم کر دیا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں بجلی کے بلات کے ذریعہ لوٹ مار سے متعلق شدید عوامی ردعمل کے نتیجہ میں بجلی کے پراجیکٹس پر آزاد کشمیر کے لوگوں کا حق ملکیت اور حق استفادہ بحال کرنے کیلئے منگلا ڈیم سے 400 میگا واٹ بجلی اس ریٹ پر آزاد کشمیر کو مہیا کی جائے جو منگلا پاور ہاوس میں بجلی کی فی یونٹ پیداوار پر رواں اخراجات آرہے ہیں۔جو 2 روپے فی یونٹ ہیں ( پاکستان کی ڈسکوز کو واپڈا 2 روپے 3 پیسے فی یونٹ بجلی دیتا رہا ہے) آزاد کشمیرمیں محکمہ برقیات بھی واپڈا سے 2 روپے فی یونٹ بلک ٹیرف پر بجلی خریدنے کا حق رکھتا ہے۔ منگلا کی بجلی پاکستان کی ڈسکوز کی سیر کرتی ہے وہاں اسے انرجی مکس کا ٹیکا لگایا جاتا ہے پھر اس پر پاکستان کے صارفین کے برابر یکساں ٹیرف کا فارمولا لگا کر ڈسکوز کے ذریعہ آزاد کشمیر میں بجلی فروخت کی جاتی ہے۔ جس کی قیمت میں پاکستان میں آئی پی پیز کی لوٹ مار سرکلر ڈیٹ اور پاکستان کے طبقہء بدمعاشیہ کے مفت بجلی کے اخراجات شامل ہوجاتے ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کو بھی مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس “بھتہ خوری” کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس ڈکیتی کی روشنی میں پاکستان کے صارفین کے برابر آزاد کشمیر کے صارفین پر یکساں ٹیرف کا فارمولا لاگو کرنے کی قطعا” جوازیت نہیں ہے۔ لہذا 2019 اور2022 میں فیڈرل حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشنز کی منسوخی کیلئے فیڈرل حکومت سے فوری تحریک کیجائے جس میں آزادکشمیر کے صارفین کے لئے بجلی کو ڈسکوز کے سفر کی تکلیف دیئے بغیر اور ٹیرف کے تعین کیلئے ڈسکوز کے ٹیرف کو درمیان میں لائے بغیر، منگلا ڈیم سے آزاد کشمیر کے محکمہ برقیات کو 400 میگا واٹ بجلی اس کی فی یونٹ لاگت پر براہ راست مہیا کی جائے اور آزاد کشمیر حکومت اس ریٹ میں صرف سروسز چارجز شامل کر کے ٹیکس فری بجلی اپنے قدرتی وسائل کے حق ملکیت کے استفادہ کے بنیادی انسانی حق کے طور پر لوگوں کو مہیا کرے۔
Load/Hide Comments