جسٹس عمر عطاء بندیال بطور چیف جسٹس : تحریر مزمل سہروردی


چیف جسٹس عمر عطا ابندیال اب ریٹائر ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اب ایک ڈوبتا ہوا سورج ہے۔ بہر حال ہر سورج کو آخر ڈوب ہی جانا ہوتا ہے۔ سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ سورج نے اپنے جوبن پر فضا اور زمین کوکتنی روشنی دی۔ جو سورج اپنے جوبن پر بھی بادلوں میں چھپ جائے اور روشنی نہ دے سکے۔

اس کے ڈوبنے اور چمکنے میں کوئی فرق نہیں محسوس ہوتا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رخصت ہوتے ہوئے کوئی فل کورٹ ریفرنس نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کی روایت ہے کہ وہ بردار جج کو جاتے ہوئے فل کورٹ ریفرنس دیا جاتا ہے، جہاں اس کے بہترین فیصلوں کا بھی ذکر ہوتا ہے اور اس کی عدلیہ کے لیے خدمات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔

لیکن سبکدوش چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے لیے کوئی فل کورٹ ریفرنس نہیں ہوا۔ کیا اس کی یہ وجہ تھی کہ ان کی لیڈرشپ میں عدلیہ کوئی مثالی کارکردگی ہی نہیں تھی؟ کیا اس کی وجہ سپریم کورٹ میں تقسیم تھی؟ کیا رخصت ہونے والے چیف جسٹس اپنے ساتھی برادر ججز کی اپنے بارے میں رائے سننا نہیں چاہتے تھے؟ بہر حال اس حوالے سے سب کی اپنی اپنی رائے ہو سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں سب ہی وجوہات اپنی جگہ موجود تھیں۔
ہم خیال بنچ بنانے کی روایت نے انھیں اپنے ساتھیوں میں غیر مقبول کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسی کو تقریبا تمام اہم بنچز سے باہر رکھا۔ ایک عمومی رائے یہی تھی کہ سابق چیف جسٹس نے انھیں عملا کارنر کر کے رکھا۔

وہ سیاسی چیف جسٹس کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ لیکن وہ پہلے سیاسی چیف جسٹس نہیں تھے، ان سے پہلے بھی سیاسی چیف جسٹس تھے۔ تا ہم ان میں اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال میں بنیادی فرق یہی رہا کہ ان کے دور میں سپریم کورٹ میں تقسیم اس قدر نمایاں نہیں تھی۔

غور کیا جائے تو سبکدوش چیف جسٹس عمر عطابندیال، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور سابق چیف جسٹس گلزار کی نسبت کوئی زیادہ سیاسی نہیں تھے لیکن پھر بھی وہ متنازعہ زیادہ ہو گئے۔

انھیں سپریم کورٹ کے اند رکی تقسیم کھا گئی۔ اگر سپریم کورٹ کے ساتھی ججز ساتھ رہتے تو شاید یہ صورتحال نہ ہوتی۔اگر ہم خیال بنچز میں جونئیر ججز کے بجائے سینئرججز ساتھ ہوتے تو شاید اتنی تنقید نہ ہوتی۔ اگر بڑے فیصلوں میں سینئیر ججز ساتھ کھڑے نظر آتے تو ان کی ساکھ بہت بہتر ہوتی۔

جب فل کورٹ کا مطالبہ کیا گیا تھا اور فل کورٹ بنا دیا جاتا تو کسی کو آج کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔آج بھی تو فل کورٹ بن گیا ہے ، سوال یہ ہے کہ پھر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ کیوں نہیں بنارہے تھے؟ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن فل کورٹ اجلا س بھی بلا سکتے ہیں اور پریکٹس اینڈ پروسجیر بل پرفل کورٹ بنا سکتے ہیں تو سابق چیف جسٹس کے لیے یہ کیوں ممکن نہیں تھا؟ دیکھا جائے تو انھوں نے غیر ضروری طور پر فل کورٹ کو ایک تنازعہ بنا لیا تھا۔

اگر یہ دیکھا جائے تو عمومی تاثر یہی تھا کہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس، عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے حالانکہ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس گلزار اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی ایسا ہی نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن ان کے نرم گوشے کا عمران خان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوا اور تحریک انصاف اور عمران خان آج بھی ان سابق چیف جسٹس صاحبان کی قدر کرتے ہیں۔

ان پر کسی بھی قسم کے سیاسی حملے کا تحریک انصاف بھر پور جواب بھی دیتی ہے۔لیکن رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ان کی تمام تر حمایت کے باوجود تحریک انصاف اور عمران خان شاید ان سے خوش نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں انھوں نے عمران خان کو نیب کی حراست سے رہا کرا دیا تھا، انھیں کورٹ روم میں گڈ ٹو سی یو بھی کہا تھا جس پر شدید تنقید کا سامنا بھی رہا، وہ وضاحتیں بھی دیتے رہے۔ لیکن یہ کافی نہیں تھا۔

عمران خان آج بھی جیل میں ہیں۔توشہ خانہ میں عمران خان کی وہ مدد نہیں کر سکے جو عمران خان چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ آج نہ صرف جیل میں ہیں بلکہ سزا یافتہ اور نا اہل ہیں۔ اگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال مقدمہ کو ناقابل سماعت قرار دے دیتے تو آج وہ سزا یافتہ نہ ہوتے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں تحریک انصاف کے دوست بھی انھیں ایک کمزور چیف جسٹس ہی قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح وہ پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ دیکر وہاں انتخاب نہ کرا سکے۔ بہتر یہی تھا کہ وہ سو موٹو نہ لیتے۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیتے، پھر جب کیس سپریم کورٹ میں آتا تو سماعت کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ پھر فل کورٹ نہیں بنایا۔ انھوں نے اگر 14مئی کو انتخاب کا حکم دے دیا تھا تو پھر وہ انتخاب نہیں کروا سکے۔ وہ نہ صرف انتخاب کروانے میں ناکام رہے بلکہ انتخاب نہ کرانے کی ذمے داری بھی فکس کرنے میں ناکام رہے۔

تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال تحریک انصاف اور عمران خان کو ہر ممکن ریلیف دیا لیکن خان صاحب اور تحریک انصاف نے سب کچھ ضایع کر دیا۔ پنجاب کی حکومت تحریک انصاف اور پرویز الہی دی لیکن اس حکومت کو چلانے میں ناکامی ہوئی اور پھر اسمبلی اور حکومت توڑ دی۔

یوں تحریک انصاف کی اپنی کمزوری بھی کھل کر سامنے آگئی، وہ ہم خیال ججز کو عوامی سپورٹ فراہم کرنے میں ناکام رہے، عدلیہ آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر تحریک انصاف اورخان صاحب کی جو کچھ کرسکتی تھی، وہ کی لیکن سیاسی میدان میں پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ پر دباو بڑھانا تحریک انصاف کی قیادت کا کام تھا جو وہ سیاسی اور جمہوری انداز میں نہیں کر پائی ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس