ستمبر 2023کے پہلے ہفتے طالبان حکومت کے ایک ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ افغان شہری پاکستان نہ جائیں کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
لیجیے، اب طالبان حکام بھی پاکستان پر زبانِ طعن دراز کرنے لگے ہیں۔ افغان طالبان نے یہ بیان اس وقت دیا جب طالبان حکام کی پاکستان مخالف کارروائیوں کے نتیجے میں طورخم بارڈر آٹھ دن بند رہنے کے بعد (15ستمبر2023کو) کھل رہا تھا ۔ایک روز پہلے(14ستمبر) نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ پاکستان میں بغیر ویزہ قیام پذیر افغانوں کو ہم نکال رہے ہیں ۔
کاش کاکڑ صاحب اپنے اِس اعلان پر جلد عمل کر دکھائیں اور پاکستانی عوام کی شاباش پائیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا : پاکستان میں60لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ہم مزید نہیں اٹھا سکتے ۔
اِنہیں واپس اپنے وطن جانا چاہیے اور اب روزنامہ ایکسپریس نے ایک خبر میں بتایا ہے کہ پاکستان میں قیام کے لیے رجسٹریشن نہ کروانے پر ساڑھے سات لاکھ افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ افغان مہاجرین پاکستان میں دانستہ رو پوش ہو گئے ہیں۔
جوں جوں پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہو رہے ہیں، پاکستان کاہر شخص اور ہر ادارہ پاکستانی معیشت اور سماج پر افغان مہاجرین کے مہلک دباؤ اور اثرات بارے احتجاج کرتا نظر آ رہا ہے ۔ پاکستانی عوام اب افغان مہاجرین سے جلد از جلد گلو خلاصی چاہتے ہیں ۔
ہر افغان مہاجر خاندان میں شرحِ پیدائش اسقدر زیادہ ہے کہ اب اِن کی تعداد60لاکھ نہیں بلکہ ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہوگی۔ اب جب کہ افغانستان میں امارتِ اسلامی قدم جما چکی ہے،پاکستان پر شدید بوجھ بنے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک کیوں نہیں جا رہے؟ افغان مہاجرین کی برق رفتاری سے بڑھتی آبادی سے تنگ آکر اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی افغان مہاجرین کی امداد تقریبا بند کر دی ہے؛ چنانچہ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شکستہ معیشت کے حامل پاکستان کو معاشی طور پر اِن افغان مہاجرین کی وجہ سے کسقدر بوجھ اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افغان مہاجرین پاکستانی معیشت اور سماج کو بری طرح بھنبوڑ اور ادھیڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو پہلے افغان مہاجرین کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔
لاکھوں ( بلکہ لاتعداد)افغان مہاجرین کی وجہ سے کمزور ترین معیشت کا حامل پاکستان جن عذابوں سے گزررہا ہے، ایسے ہی سنگین مسائل کا شکار بنگلہ دیش بھی بن رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو روہنگیا مہاجرین کی وجہ سے متنوع مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی تعداد 10لاکھ سے زائد ہے۔ تقریبا سات سال پہلے جب میانمار( برما) کی جابر حکومت نے روہنگیا برادری پر تشدد میں اضافہ کر دیا تو روہنگیا لوگوں نے سمندر پار کرکے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کو اولین ترجیح دی۔ روہنگیا مہاجرین کی زیادہ تعداد کو بنگلہ دیش کے جزیرے کاکسز بازار میں رکھا گیا ہے ۔ بنگلہ دیش کی حکومت اب اِن روہنگیا مہاجرین کی تعداد اورعوامل سے عاجز آ چکی ہے۔
ان کی بڑھتی شکایات کی بنیاد پر عالمی برادری (خصوصا یو این او) بنگلہ دیش پر دباؤ بڑھانے اور روہنگیا کو مزید امدادو سہولیات فراہم کرنے اور ان کی شکایات دور کرنے پر اصرار کرتی ہے۔
جب کہ بنگلہ دیشی حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارے اپنے عوام کے مصائب سنبھالے نہیں جا رہے، ہم اِن لاکھوں روہنگیا مہاجرین کے معاشی، طبی اور سماجی مسائل کیسے حل کریں؟خبروں کے مطابق، روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش کے لیے ایک بڑا بحران بن گئے ہیں؛ چنانچہ، اطلاعات کے مطابق، بنگلہ دیشی عوام میں روہنگیا مہاجرین کے خلاف غصہ بڑھ رہا ہے ۔
بنگلہ دیشی عوام اور حکومت کا کہنا ہے کہ اب جب کہ میانمار میں ملٹری حکومت کا روہنگیا برادری بارے رویہ خاصا نرم پڑ گیا ہے، روہنگیا مہاجرین کو واپس اپنے وطن چلے جانا چاہیے ۔ اِس سلسلے میں یو این او کے زیر نگرانی ایک پائلٹ پروگرام بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت کچھ روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش سے واپس میانمار بھیجا گیا ہے ۔
درمیان میں مگر عالمی ادارہ HRW کود پڑا ہے ۔ اِس نے کہا ہے کہ جو روہنگیا مہاجرین واپس میانمار پہنچے ہیں، وہ مطمئن نہیں ہیں اور نہ ہی میانماری ملٹری جنتاکا روہنگیا برادری کے خلاف کریک ڈاؤن کم ہوا ہے۔
اس لیے مزید روہنگیا مہاجرین کو میانمار بھیجنے سے گریز کیا جائے۔ بنگلہ دیشی حکومت اِس بیان پر ناخوش ہے؛ چنانچہ بنگلہ دیش میں ریفیوجی کمشنر میزان الرحمن نے کہا ہے: ہم روہنگیا مہاجرین کو زبردستی واپس نہیں بھجوا رہے ہیں جو روہنگیا مہاجرین واپس میانمار پہنچے ہیں، وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں ۔
بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیا مہاجرین کے کارن شدید معاشی دباؤ میں ہے۔ گزشتہ روزالجزیرہ نے بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین بارے ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔
اِس کے مطابق:اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے بھی رفتہ رفتہ بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی امداد میں کمی کرنا شروع کر دی ہے۔ اِس پروگرام کے تحت پہلے 12ڈالر فی کس روہنگیا مہاجر دیے جاتے تھے ۔
اب ان میں کمی کرکے8ڈالر فی کس کر دیے گئے ہیں۔اِس کمی پر کاکسز بازار کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مہاجرین نے پچھلے دنوں احتجاج بھی کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، ہمیں واپس اپنے وطن میانمار بھیجا جائے۔ گمبھیر مسئلہ مگر یہ ہے کہ جب بنگلہ دیشی حکومت اِنہیں واپس میانمار بھیجنے کا بندوبست کرتی ہے تو یہ روہنگیا مہاجرین پھر بنگلہ دیش کے خلاف احتجاج کناں ہو جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ تو افغان مہاجرین واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی روہنگیا مہاجرین میانمار۔ترکیہ بھی مہاجرین کے ایسے ہی عذابوں سے گزررہا ہے۔ اِس وقت ترکیہ میں36لاکھ مہاجرین موجود ہیں۔ زیادہ تعداد ان مہاجرین کی ہے جو شام سے آئے ہیں۔
جب سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی ہے، شامی حکومت پر صدر بشار الاسد کی گرفت کمزور پڑی ہے اور شام میں دہشت گرد داعش کی خونیں وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، شام سے ترکیہ کی جانب مہاجرین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے بعد ترکیہ ہی دنیا کاوہ ملک ہے جہاں بے تحاشہ مہاجرین نے حکومت، عوام اور معیشت پر سخت دباو ڈال رکھے ہیں۔ ترکیہ کے صدر جناب طیب ایردوان (جو مئی 2023میں تیسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں) کبھی کبھار مغربی ممالک کو یوں دھمکی بھی دے ڈالتے ہیں: تم لوگوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہے کہ میں نے لاکھوں شامی مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔
اگر آج میں ترکیہ سرحدوں کو کھول دوں تو یہ لاکھوں مہاجرین مغربی ممالک کی جانب ایک سیلاب کی طرح امنڈ پڑیں گے ۔طیب ایردوان کے مقابل صدارتی انتخاب لڑنے والے جناب کیمال کلچ دراولو، کا انتخابی منشور اور دستور ہی یہ تھا کہ اگر میں صدرِ ترکیہ منتخب ہو گیا تو اپنے ملک میں موجود لاکھوں شامی اور افغان مہاجرین کو فوری طور پر ترکیہ سے نکال باہر کروں گا۔
کروڑوں ترکیہ عوام نے کیمال کلچ دراولو کے اِس اعلان کو اپنے دل کی آواز کہا۔ کیمال صاحب ہار تو گئے لیکن ترکیہ میں لاکھوں مہاجرین کے پیدا کردہ بوجھ اور عذاب کو بھی واضح کر گئے ہیں۔ یہ احساس روز افزوں ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس