پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال اس وقت اچھی نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاسی عدم برداشت بڑھ گئی ہے وہاں مذہبی عدم برداشت بھی بڑھ گئی ہے۔ جیسے سیاسی جماعتیں نفرت پھیلا رہی ہیں، ایسے ہی معاشرے میں مذہبی منافرت بھی پھیل چکی ہے۔
جیسے ہم سیاست میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، ایسے ہی ہم مذہبی طور پر بھی ایک د وسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں مسلمانوں کے بڑے فرقے اپنے اندر موجود چھوٹے فرقوں کے لیے زندگی تنگ کر رہے ہیں۔
ایسے ہی ہم پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے لیے زندگی تنگ کر رہے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی نے مذہبی رواداری ختم کر دی ہے۔ بحیثیت معاشرہ ہماری اس حوالے سے بے حسی افسوسناک ہے۔
آپ کہیں گے میں جڑانوالہ کے واقعہ کے بعد جذباتی ہو کر یہ سب لکھ رہا ہوں۔ لیکن جڑانوالہ کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ایک واقعہ ہوگیا ہے اور ہم اس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
کیا اس سے پہلے پاکستان میں ایسے واقعات نہیں ہو رہے ہیں؟ میں توہین کے قوانین کے خلاف نہیں ہوں لیکن قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے خلاف ہوں۔ سیاسی، ذاتی یا گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے مذہب کے استعمال کے خلاف ہوں۔ عبادت گاہوں کے تقدس کو مفادات کی بھینٹ چڑھانے والوں کے خلاف ہوں۔ اقلیتوں کو نفرت سے دیکھنے کے خلاف ہوں۔
میں محض جڑانوالہ کے واقعے کے تناظر میں یہ بات نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ایک عمومی رویے کی بات ہے۔ آپ بتائیں کیا سندھ میں رہنے والے ہندو محفوظ ہیں؟ کیا ہندوؤں کو ہم سے یہ شکائت نہیں کہ سندھ میں بااثر پیر اور وڈیرے ان کی کم سن بچیوں کو اغوا کرنے والوں کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔
کیا خیبرپختونخوا میں سکھ دکاندار قتل نہیں کیے گئے ؟کیا ہمیں اس حوالے سے خصوصی قانون سازی نہیں کر پڑی۔ کیا ہمارے علما نے اس قانون سازی کی مخالفت نہیں کی۔ کیا پاکستان میں سیاسی قیادت، مذہبی قیادت اور اہل علم اس ایشو پر خاموش نہیں رہتے ہیں۔
کیا پاکستان میں مذہبی اقلیتیں حقیقی معنوں میں محفوظ ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے کے گلی محلے نظریاتی شدت پسندی کا شکار نہیں ہیں۔ پاکستان میں مذہب کی آڑ میں ہجوم اکٹھا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، مذہبی ایشو پر اکٹھا ہونے والے مشتعل ہجوم کے سامنے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو قبرستانوں پر میتوں کی تدفین پر تنازعہ ہوتے ہیں۔ مردوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا ریاستیں اس کلچر کے ساتھ قائم رہ سکتی ہیں، ہماری مذہبی اور ماڈریٹ سیاسی جماعتوں کی خاموشی ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔؟ سوال یہ ہے کہ ہم کیسا معاشرہ بن رہے ہیں؟ کیا اس روش کا انجام اچھا ہوگا؟
پاکستان کی حکومت ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی تو نہیں کر رہی ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رد عمل بھی کمزور ہے۔
مجھے یہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ پولیس بھی ڈرتی ہے کیونکہ ایسے واقعات میں ملوث لوگ قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔ ریاست اتنی سختی نہیں کر رہی جیسی کرنی چاہیے۔ جڑانوالہ کے واقعہ میں بھی ایک گروہ کا کردار بہت منفی رہا ہے۔
انھوں نے معاملے کو خراب کیا ہے۔ لیکن ہم اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔ بلکہ ان کے حوالے سے ایک دفاعی سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مذہبی انتہا پسندوں نے ریاست کو ڈرا لیا ہے اور ریاست ان کے ہاتھ میں یر غمال ہے۔
ہم سب نے وائرل ہونے والے وہ وڈیوکلپ دیکھیںہوںگے جن میں جڑانوالہ میں ایک مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی کے خلاف لاوڈ اسپیکر پر لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے۔
سانحہ جڑانوالہ کے بعد اس افسر کو تبدیل کر دیا تو اب مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اس کی تبدیلی کافی نہیں، ہمیں بتایا جائے اس کو لگایا ہی کیوں گیا۔ یہ کیا دلیل اور بات ہے۔
ایک پاکستانی مسیحی نوجوان نے اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر مقابلے کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا ہے۔ وہ رشوت دے کر یا کسی چاچے مامے کی سفارش اور دو نمبری کی بنیاد پر سرکاری افسر نہیں بنا ہے۔ کیا کوئی گروہ یا شخص ریاست سے یہ مطالبہ کرسکتا ہے کہ اسے اس لیے پوسٹنگ نہ دی جائے کہ وہ مسیحی ہے؟ لندن کا مسلمان مئیر ہو سکتا ہے۔
امریکا کا صدر مسلمان ہوسکتا ہے، بھارت کا صدر اچھوت ہوسکتا ہے، لیکن جڑانولہ کا پاکستانی مسیحی اسسٹنٹ کمشنر نہیں ہو سکتا۔ بے گناہ لوگوں کے گھر جلانا، مسلمانوں کو بھڑکانے کے لیے مساجد کے اسپیکراستعمال کرنا ، یہ سب کیا ہے۔
کیا یہ کسی مہذب معاشرے کی نشانی ہے؟ کیا یہ مسلمان معاشرے کی نشانی ہے؟ وزیر اعظم کا جڑانولہ چلے جانا، پوری پنجاب کابینہ کا جڑانوالہ چلے جانا، چرچ میں کابینہ کا اجلاس سب اچھے اقدامات ہیں۔ دنیا میں یہ پیغام گیا ہے کہ ریاست پاکستان ایسے واقعات کے خلاف ہے۔ ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارامعاشرہ کہاں کھڑا ہے؟
کیا انتہاپسند گروہ قانون اور ریاست سے زیادہ طاقتور نظر نہیں آرہے ہیں؟ کیا ہم بحیثیت معاشرہ بے بس نظر نہیں آرہے ہیں؟ شاید ہم سب دل سے اسے واقعہ پر دکھی ہیںلیکن ان کوروکنے کی طاقت ہم میں نہیں۔ ہم بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ صرف پاکستان کی اقلیتیں ہی ان سے خوفزدہ نہیں ہیں، پاکستان کا امن پسند مسلمان شہری بھی ان سے خوفزدہ ہے۔
وہ بھی ڈرتا ہے کیونکہ انتہا پسندوں کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے مخالف کسی مسلمان کو اقلیت بنا کر تباہ کر سکتے ہیں۔کس قدر افسوسناک ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس